Tuesday, 14 October 2014

ﺍﺻﻞ ﻣﺤﺒﺖ

ﺍﺻﻞ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻝ
ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﺍُﮒ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺭﺵ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﮨﺮﯾﺎﻟﯽ ۔۔۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮨﺮﯾﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﺡ
ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮬﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺳﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺳﯿﻢ ﺯﺩﮦ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ
ﺳﺎﺭﮮ ﺣﺴﯿﻦ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﭘُﺮﻟﻄﻒ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺟﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ، ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﭨﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺮﭼﯿﺎﮞ ﻧﮧ
ﺳﻤﭧ ﭘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﭼُﻨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﻌﺪ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺍﻥ ﮨﯽ ﮐﺮﭼﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﻭﮦ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﺎ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﺗﺎﺭﮮ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ
ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﺲ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭ
ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺗﺮﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﺑﻮﻝ
ﺍﭘﻨﯽ ﻣﭩﮭﺎﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﭩﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ایک ہو مسلم


بچپن میں ایک کہانی سنی تھی جس میں ایک چرواہا تھا. ..
ایک دن اس کو جنگل میں شیر کا ایک بچہ ملا تو وہ بڑا پریشان ہوا کہ اس کا کیا کرے ظاہر ہے کہ اس کو اپنے گھر نہیں لیجاسکتا تھا بھیڑ بکریوں پر ہی اس غریب کا گزر بسر تھا شیر کی وحشت سے خوب واقف تھا مگر دل میں رحم آگیا اور شیر کے اس بچے کو اپنے ساتھ لے آیا....
اور اس کی پرورش کرنے لگا شیر کا یہ بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہورہا تھا مگر اس کو شکار کرنا نہیں آتا تھا بلکہ بھیڑ بکریاں اس سے جارحانہ رویہ اپنائے رکھتے
اور یہ غریب ان کی مار تک بھی برداشت کر جاتا جنگل میں موجود ایک بھیڑئیے نے جب یہ منظر دیکھا تو خوش ہوگیا کہ یہ شیر جس کے ڈر کی وجہ سے میں ان بکریوں کا شکار نہیں کررہا تھا یہ شیر تو خود بھیڑ بنا ہوا ہے-
غرض یہ کہ اس بھیڑئیے نے ایک دن ہمت کر ہی لی اور ایک بکری پر حملہ کردیا اس بکری کے پیچھے جب یہ بھیڑیا دوڑ رہا تھا تو شیر باقی بکریوں کی طرح دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا مگر جب اس نے اس بکری کی بے بسی ، اور اس کے خوف کو دیکھا تو ایک دم اس کے اندر کے شیر کی سوئی ہوئی جبلت جاگ اٹھی اس نے اس زور سے دھاڑ ماری کہ بھیڑیا لرز اٹھا اور پھر شیر نے اس کو حملہ کرکے بھگا دیا-
دل خون کے آنسو روتا ہے اس بات کو سوچ سوچ کر کہ اس مسلمان سے کافر کب سے کھیل رہے ہیں مگر اپنی جبلت میں پڑا کلمہ بیدار ہی نہیں کرتا-
یاد رہے لا الہ الا اللہ کا مطلب یہی ہے کہ کوئی معبود نہیں کوئی بڑا نہیں کوئی چودھری نہیں کوئی حاکم نہیں سوائے اللہ بزرگ و برتر کے-
آج اس غریب مسلمان کی جان کو ہر کوئی چودھری بنا ہوا ہے-
ہان یہی مسلمان ہے کہ جس کا قتل عام کیا جاتا ہے جس کی آبرو پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں جس کی بیٹیوں کا کوئی وارث نہیں-
جس کی اجتماعی قبریں دنیا میں پھیلتی جارہی ہیں جس کی پوری پوری بستیوں کو جلا دیا جاتا ہے جس کی مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے...
~ میرے بھائیو ~
اللہ کےلیے اپنے مسلمانوں کی خبر لو
مسلمانوں کی یہ درد سے لبریز اور غم و الم میں ڈوبی پکار آج دنیا کے ہر کونے سے آرہی ہے-
آج ہر مسلمان ان مظلوموں کےلیے جو ھو سکتا وہ کر گزرے ہماری زندگیوں میں لوگ اللہ اور اس کے رسول کی حرمت کے ساتھ مذاق کررہے ہیں بے بس امت مسلمہ اپنے حکمرانوں سے مایوس ہوکر مسلمانوں کو پکار رہی ہے-
{ اے مسلم }
اگر تو خود کچھ نہیں کرسکتا تو رب کےلیے ان مظلوم مسلمانوں کے پیغام کو دوسرے مسلمانوں تک پہنچا دے شاید کوئی نبی کی امت کا وارث اٹھ کھڑا ھو
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیئے

برائی

پتہ نہیں یہ برائی کیوں اتنی وزن دار ہوتی ہے لاکھ اچھائیوں پر غلبہ پاتی ہے ہم انسان کسی کی ایک برائی کی وجہ سے اسکی لاکھ اچھائیوں کو بھلا دیتے ہیں۔ پھر وہی ایک برائی دل میں صدا زندہ رہتی ہے مگر اچھائیاں زندگی بھر کے مٹ جاتے ہیں۔

حیثیت


چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب، ڈوب کے ابھرتا ہے مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے پھر
زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔"
اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "پارس" سے

مذہب کی اہمیت


مذہب کی اہمیت کا اصل اندازہ تو اسی وقت ہوتا ھے جب آپ آزمائش میں ہوں۔ آزمائش بلکل دلدل کی طرح ہوتی ھے اس میں سے انسان صرف اپنے بل بوتے پر نہئں نکل سکتا۔ کوئی رسی چاھئے ہوتی ھے کسی کا ہاتھ درکار ہوتا ھے اور اس وقت وہ رسی اور ہاتھ مذہب ہوتا ھے۔ رسی اور ہاتھ نہئں ہوگا تو آپ دلدل کے اندر جتنے ذیادہ ہاتھ پاؤں مرئیں گے اتنا ہی جلد ڈوبیں گے۔ پانی میں ڈوبنے والا شخص زندہ نہئں تو مرنے کے بعد باھر آ جاتا ھے مگر دلدل جس شخص کو نگلنے میں کامیاب ہوجاتی ھے اسے دوبارہ ظاھر نہئں کرتی لیکن جو شخص ایک بار ہاتھ اور رسی کے زریعے دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجاے وہ اگلی کسی دلدل سے نھئں ڈرتا۔ اسے یقین ہوتا ھے کہ وہ شور مچاے گا چلاے گا تو ہاتھ اور رسی بالاآخر آجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائناتی ماڈل...

کائناتی ماڈل... 

یہ کائناتی ماڈل کیا ہے .. آپ خلا میں پھیلے ہوئے ستاروں اور سیاروں کو دیکھیے .. ہر ستارہ اور سیارہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے ..
ان میں سے کوئ کسی دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا.. اسی ڈسپلن کی وجہ سے خلا میں ہر طرف امن قائم ہے.. انسان کو بھی اپنے سماج میں عدم مداخلت کی اسی پالیسی کو اختیار کرنا ہے.. ہر ایک کہ اندر یہ زندہ شعور ہونا چاہیے کہ اس کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے...

اسی طرح درختوں کی دنیا کو دیکھیے.. درختوں نے خاموشی کے ساتھ یہ نظام اختیار کر رکھا ہے کہ وہ زندہ اجسام کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مسلسل آکسیجن سپلائی کرتے ہیں ..
اور زندہ اجسام سے نکلی ہوئ غیر مطلوب کاربن ڈائ آکسائیڈ کو اپنے اندر لے لیتے ہیں... یہ ایک بے غرضانہ نفع بخشی کا نظام ہے.. انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اسی نظام. کو اختیار کرے...

اسی طرح اپ دیکھتے ہیں کہ پہاڑوں سے پانی کے چشمے اوپر سے نیچے کی طرف جاری ہوتے ہیں... ان چشموں کے ساتھ بار بار ایسا ہوتا ہے کی ان کے راستے میں ایسے پتھر آتے ہیں جو بظاہر ان کے سفر کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں...
مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو ہٹا کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرے..اس کی بجائے وہ یہ کرتا ہے کہ پتھر کے کنارے سے اپنا راستہ بنا کر اگے چلا جاتا ہے..
یہ گویا اس بات کا پیغام ہےکہ ------ رکاوٹوں سے نہ ٹکراؤ ..بلکہ رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنی سرگرمی جاری کرو...
اس سے معلوم ہوا کہ آس پاس کی جو دنیا ہے وہ دینے والی دنیا ( Giver world ) ہے لینے والی دنیا ( Taker world ) نہیں ....
اس دنیا کی ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ دوسروں سے لیے بغیر دوسروں کو دینے والے بنو.... انسان کو یہی کلچر اپنانا ہے اس کو اپنی دنیا میں دینے والا بن کر رہنا ہے نہ کہ لینے والا...

''خدمت میں عظمت''

اردو تقریر
موضوع : ''خدمت میں عظمت''
''خدمت میں عظمت''
فرمان ربانی
ومن أحیاھا فکأنما احیا الناس جمیعا
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ھیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ھیں
تو شاھیں ھے پرواز ھے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ھیں
اسی روز و شب میں الجھہ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ھیں
حضرات و حاضرین ۔۔۔۔۔ !
آج مجھے جس موضوع پر گفتگو کرنا ھے وہ کچھ یوں ھے کہ
''خدمت میں عظمت''
دنیا ترقی کی لاکھون مراحل طے کر چکی ھے اور آج انسان فضاؤں کی تسخیر کرنے اور آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کے متعلق سوچ رہا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ انسانی زندگی آج بھی انھی اصولوں پر استوار ھے جن اصولوں پر آج سے ھزاروں سال پہلے تھا آج بھی انسانی دنیا کامیابی، شہرت اور ترقی کے وھی اصول ھیں جو آج سے ھزاروں سال پہلے تھے
حضرات گرمئ قدر ۔۔۔۔۔۔۔ !
آج سے ھزاروں سال پہلے بھی لوگ جن باتوں سے ناراض ھوتے تھے آج بھی انہی باتوں سے نا خوش ھوتے ھیں۔ اس وقت کے لوگ جن باتوں پر خوش ھوتے تھے آج کے لوگ بھی انہی باتوں پر خوشی کا اظہار کرتے ھیں۔
اسلام کے ان زریں اصولوں میں سے ایک اصول یہ ھیکہ
''قوم کا سردار انکا خادم ھوتا ھے''
بظاھر تو یہ ایک چھوٹا سا اصول ھے اور یہ اصول ھماری قوم کی توجہ حاصل نہیں کر سکا
اسکے برعکس ھمارا خیال یہ ھے کہ قوم کا سردار انکا مخدوم ھوتا ھے۔ اسی لیئے ھمارے ہاں کرسئ اقتدار ملنے کے بعد قوم کسی رحم اور معافی کی مستحق نہیں سمجھی جاتی۔
لیکن سچ تو یہ ھے کہ دنیا میں حقیقی سرداری، عزت اور توقیر انھیں کو حاصل ھوتی ھے جو اسلام کے اس سچے اور لازوال اصول پر عمل کرتے ھیں اور لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کی معرا سمجھتے ھیں۔
البتہ جو لوگ یا قومیں اسکے بر عکس عمل کرتی ھیں دنیا اور آخرت دونوں میں ذلت و رسوائی انکا مقدر ھوتی ھے۔
سامعین ۔۔۔۔۔ !
نبئ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوۃ حسنہ اور خلفائے راشدین نے اپنے پاکیزہ طرزعمل کے ذریئعے ھمیں اسکی تعلیم فراھم کی ھے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ھمیشہ خود صحابہ کے ساتھہ ہر معاملہ میں میں شریک رھے اور کسی موقع پر بھی امتیازی انداز کا مظاھرہ نہیں فرمایا
جب مدینہ منورہ آپ کی آمد ھوئی اور تمام علاقے کے لوگوں نے آپ علیہ السلام کو حاکمتسلیم کر لیا تو اسکے باوجود بھی آپ کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔
''مسجد قباء'' اور ''مسجد نبوی'' کی تعمیر ھوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۃ کرام کے ساتھہ ملکر اسکی تعمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے صحابہ کی طرح مٹی اور گارے کو اٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں انکے ساتھہ شریک تھے۔
اور جب صحابہ ایک آواز ھوکر اشعار پڑھتے تو رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انکا ساتھہ دیتے۔
اسی طرح غزوۃ خندق کے موقع پر جب تین ھزار صحابہ کرام خندق کھود رھے تھے تو آپ علیہ السلام بھی انکے ساتھہ مزدوروں کی طرح کام میں لگے ھوئے تھے اس سے بھی زیادہ جب کوئی مشکل مقام آتا ھے تو صحابہ آپ علیہ السلام کے پاس آتے اور آپ کدال لے کر اسکی کھدائی کر دیتے۔
جناب والا ۔۔۔۔۔۔ !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں کی خدمت اپنے ہاتھہ سے کرتے۔
حدیث میں ھیکہ
حبشہ سے کچھہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا جب انکی خدمت کا وقت آیا تو صحابہ رضوان اللہ علیہم أجمعین نے چاھا کہ انکی خدمت کریں لیکن نبی أکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''ان لوگوں نے میرے صحابہ کی خدمت کی تھی میں انکی خدمت اپنے ہاتھوں سے کرنا چاھتا ھوں''
أم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نبئ مکرم کے بارے میں بیان کرتی ھیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ھوتے تو اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے اپنی بکری کا دودھ خود دوھتے، جوتا ٹوٹا ھوا ھوتا تو اسے پیوند لگا لیتے، پھٹے ھوئے کپڑے سی لیتے، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیئے کوئی بھی شخص آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندہ پیشانی سے ملتے،
اسی طرح خلفائے راشدین میں سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ھیکہ
وہ کئی غریب لوگوں کے گھروں میں جاتے اور انکے جانوروں کا دودھ دھو آتے، اگر گھر میں سودا سلف لانے والا کوئی نہ ھوتا تو آپ بازار سے انہیں سودا سلف لاکر دے دیتے
حضرت عمر کی خدمت کے متعلق قصے تو ہر زبان پر ھیں
سیدنا عثمان اور علی رضی اللہ عنھما بھی عوام کی خدمت میں پیش پیش رھتے تھے
سامعین محترم ۔۔۔۔۔ !
سیرت طیبہ کے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ھوا کہ اللہ تعالی نے ''خدمت میں عظمت'' رکھی ھے
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ھے
زندہ رھتا ھے انسان خدمات سے
نہ کہ مال و منصب، نہ مراعات سے
نیک نامی تو بھی دنیا میں کما
بہرہ ور ھو تو بھی اس سوغات سے

Wednesday, 10 September 2014

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے ، کہو کس کو بتاؤ گے ، وہ اپنی الجھنیں ساری ، وہ بیچینی میں ڈوبے پل ، وہ آنکھوں میں چھپے آنسو ، کسی پھر تم دکھاؤ گے ، کبھی جو ہم نہیں ہوں گے ، بہت بیچین ہو گے تم ، بہت تنہا رہ جاؤ گے ، ابھی بھی تم نہیں سمجھے ، ہماری ان کہی باتیں ، مگر جب یاد آئیں گے ، بہت تم کو رلائیں گے ، بہت چاہو گے پھر بھی تم ، ہمیں نا ڈھونڈ پاؤ گے ، کبھی جو ہم نہیں ہوں گے

دلیل محبت ؟

دلیل محبت ؟ سنا تھا ہم نے لوگوں سے محبت چیز ایسی ہے چھپائے چھپ نہیں سکتی! یہ آنکھوں میں چمکتی ہے یہ چہروں پر دمکتی ہے یہ لہجوں میں جھلکتی ہے دلوں تک کو گھلاتی ہے لہو ایندھن بناتی ہے اگر سچ ہے .....تو پھر آخر ہمیں اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟ نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے نہ چہروں پر ٹپکتی ہے نہ لہجوں میں سلگتی ہے دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے نہ یہ مجنوں بناتی ہے عجب! ..... ایسی محبت ہے (فقط دعویٰ سجھاتی ہے) نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے! ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر کہیں سے بجلیاں کوندیں صدا آئی ......... ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا وہاں خود جان جاؤ گے محبت کی حقیقت کو! شاعر: احسن عزیز کتاب: تمہارا مجھ سے وعدہ تھا!

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے بادلو! ہٹ جاﺅ دے دو راہ جانے کے لئے اے دعا! ہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے اے خدا، رخ پھیر دے اب گردش ایام کے رحم کر اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہی

ارے او مسلم بتا

ارے او مسلم بتا کیوں تو نے ماضی اپنا بھلا دیا ہے ؟؟؟ تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو ! واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی :

میں اپنے نبی کے کُوچے میں

میں اپنے نبی کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا اِك خواب سے گويا اٹھا تھا كچھ ايسى سكينت طارى تھی حيرت سے ان آنكھوں كو اپنی ملتا ہی گیا ملتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا جب مسجد نبوى كو ديكھا ميں روضہ جنت ميں پہنچا جِس جا وہ ﷺ مبارك چہرے كو اشكوں سے اپنے دھوتا تھا جب دنيا والے سوتے تھے وہ ﷺ ان کے ليے پھر روتا تھا اك ميں تھا كہ سب كچھ بھول رہا ، اك وہ ﷺ تھا كہ امت كى خاطر كتنے صدمے اور كتنے الم، جھلتا ہی گیا جھلتا ہی گيا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا طائف كى وادى ميں اترا، طالب كى گھاٹی سے گزرا اك شام نكل پھر طیبہ سے ميدان احد ميں جا بيٹھا واں پیارے حمزہ كا لاشہ جب چشمِ تصور سے ديكھا عبداللہ کے شہ زادے ﷺ كو اس دشت ميں پھر بِسمل ديكھا يہ سارے منظر ديكھ کے پھر ميں رہ نہ سکا كچھ کہہ نہ سكا بس دکھ اور درد كے قالب ميں ڈھلتا ہی گیا ڈھلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا ميں كيا منہ لے كر جاؤں گا؟ كوثر كى طرف جب آؤں گا تلوار ميں ميرى دھار نہیں، تعلیمِ دین سے پیار نہیں باتوں ميں ميرى سوز كہاں؟ آہیں ميرى دل دوز كہاں؟ كتنے ہی پیماں توڑ چکا، میں رب كى ياديں چھوڑ چکا! اِك ايك مرا پھر جرم مجھے کَھلتا ہی گیا کَھلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا پھر لوٹ کے جب میں گھر آیا، اك شمع ساتھ ہی لے آیا يہ حب سنت كى شمع جس دن سے فروزاں كى ميں نے اس دن سے ميں پروانہ بن كر جلتا ہی گیا جلتا ہی گيا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا

جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا جو جمال روئے حیات ﷺ تھا، جو دلیل راہ نجات ﷺ تھا اسی راہبر ﷺکے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی


رشتوں کی کہکشاں

رشتوں' کی 'کہکشاں' سر بازار 'بیچ' کر 'گھر' کو 'بچا' لیا 'در و دیوار' 'بیچ' کر 'شہرت' کی 'بھوک' ہم کو کہاں لے کے آگئی ہم 'محترم' ھوۓ بھی تو 'کردار' 'بیچ' کر وہ شخص 'سورما' ھے مگر 'باپ' بھی تو ھے 'روٹی' 'خرید' لی ھے 'تلوار' 'بیچ' کر جس کے 'قلم' نے 'مدتوں' بوۓ ہیں 'انقلاب' اب 'پیٹ' 'پالتا' ھے وہ 'افکار' 'بیچ' کر 'کانپی' ذرا 'زمین' تو سب 'خاک' ھو گیا ہم نے 'محل' بناۓ تھے 'مینار' 'بیچ' کر

پاکستان پاکستان

چاند نگر کی باتیں کر ے من کو کیوں بہلائیں ہم؟ ایسے نگر سے کیا ہے لینا جس تک پہنچ نہ پائیں ہم چاند نگر بھی جائیں گے ا سکو بھی سجائیں گے پہلے اپنے گھر کو دیکھیں پہلے اسے سجائیں ہم اپنا دیس اور اپنی دھرتی سونا اگلے ہر اک کھیتی اس کے ہی گن گائیں ہم اس سے پیار بڑھائیں ہم اس تک بڑھنے والے ہاتھ دینگے ہم فوراً ہی کاٹ ترچھی نظر سے کوئی دیکھے یہ بھی سہہ نہ پائیں ہم عزت حرمت شان اور شوکت دولت عظمت اور اخوت دینا خدایا ہر دم برکت مانگیں یہی دعائیں ہم اس دھرتی کا بچہ بچہ اس دھرتی کا ہر جوان اس کے ہی گن گاتا ہے اس کی شان بڑھائیں ہم صنعت و حرفت اور تجارت علم و ہنر صحت عمارت حاصل ہے ان سب مہارت کل عالم پر چھائیں ہم سبز ہلالی پرچم لے کر نعرہ یہ لگائیں ہم پاکستان کی عزت شہرت دنیا میں بڑھائیں آمین

اردو شاعری

منزل کی جستجو میں تو چلنا بھی شرط تھا چنگاریوں کے کھیل میں جلنا بھی شرط تھا یہ اذن تھا کہ خواب ہوں رنگین خون سے اور جاگنے پہ رنگ بدلنا بھی شرط تھا مجروح ہو کے درد چھپانا تھا لازمی اور زخم آشنائی کا پھلنا بھی شرط تھا گرنا تھا ہو قدم پہ مگر حوصلے کے ساتھ اور گر کے بار بار سنھبلنا بھی شرط تھا اُس حسن سرد مہر کے قانون تھے عجیب اپنا جگر چبا کے نگلنا بھی شرط تھا اپنے خلاف فیصلہ لکھنا تھا خود مجھے پھر اُس بریدہ ہاتھ کو ملنا بھی شرط تھا یاسمین حبیب

Friday, 20 June 2014

کس کی قربانی زیادہ ہے



کیا آپ مجھے اپنا فون نمبر دے سکتی ہیں؟


لڑکا: واہ، آپ بہت خوبصورت ہیں! کیا آپ مجھے اپنا فون نمبر دے سکتی ہیں؟

لڑکی: جی ہاں بالکل! نمبر 17:32 ہے

لڑکا: آپ کا 17:32 سے کیا مطلب ہے؟

لڑکی:- سورہ 17 آیت 32

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّه كَانَ فَاحِشَةً وَ سَآءَ سَبِیْلًا۝۳۲

اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ

And approach not adultery, undoubtedly that is immodesty and a very vile path

ایک نصیحت اور ایک آب بیتی بہنوں کیلئے خصوصی

 ، ایک نصیحت اور ایک آب بیتی
لکھنے والا نا معلوم .....
میں کالج کے امتحانات سے فارغ ہوئی تو بوریت کا شکار تھی ، گھر کا ماحول بھی تھوڑا سخت تھا ، آزادانہ گھومنے پھرنے کی پابندی تھی تو سوچا کیوں نہ وقت گزاری کیلئے فیس بک جوائن کر لوں ، پھر کیا بتاؤں بس یوں سمجھو کہ امی سے کئی بار ڈانٹ بھی کھائی مگر فیس بک تو جیسے میرا اوڑھنا بچھونا ہی بن گئی ، ہے تو غلط بات مگر وقتی طور پر مجھے اچھا لگا ، لڑکوں کی توجہ پانا اور تعریفی کلمات سننا لیکن چونکہ میں ایسے ماحول کی عادی نہیں تھی تو مجھے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہونا شروع ہو گیا ، جب میں نے دیکھا کہ میری ہر پوسٹ پر بیشمار کومنٹس آتے تھے ، کبھی کوئی محبت بھری شاعری میں ٹیگ کر رہا ہوتا تو کبھی کوئی ان باکس میں چاہت کا اظہار کر رہا ہوتا ، ڈیٹس کی آفر کر رہا ہوتا کئی ٹھرکی حضرات نے تو بنا دیکھے شادی کی پیشکش بھی کر دی مگرمجھے امی کی وارننگ یاد تھی کہ میں نے تمہاری تربیت میں کوئی کمی نہیں کی ہے ، اچھے اور برے کی پہچان سکھا دی ہے ، اب میں 24 گھنٹے تمہاری چوکیداری نہیں کر سکتی ، بس ہمارا اعتبار کبھی نہ توڑنا ! امی کی باتیں سمجھہ تو آتی تھیں مگر فیس بک کا چارم ساری نصیحتیں بھلا دیتا تھا ، سوچتی تھی کہ وقت گزاری ہی تو ہے بس ، میں کونسا کسی سے زیادہ فری ہوتی ہوں جو پریشانی ہو ، مگر پھر یوں ہوا کہ ایک لڑکا جو بظاہر بہت مہذب تھا مجھے سچ مچ اچھا لگنے لگا ، بقول اس کے اسکی ساری توجہ کا مرکز صرف میں تھی ، میں اسکی خوبصورت باتوں کے جال میں آ گئی اور اس پر بھروسہ کرنے لگی ، میں اس سے ابھی تک ملی نہیں تھی مگر مجھے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے میں اسے ہمیشہ سے جانتی ہوں اور وہ جیون ساتھی بننے کیلئے بہت موزوں ہے ، موقع دیکھ کر امی سے بات کروں گی اسکے بارے میں ! لیکن آھستہ آھستہ اسکی بے تکلفیاں بڑھنے لگیں ، اسکی ذومعنی باتیں مجھے پریشان کرنے لگی تھی ، ایک چبھن سی تھی جو اندر کچوکتی رہتی تھی ، میں اب اس سے ناطہ ختم کرنا چاہتی تھی مگر وہ خود کو جان سے مارنے کی دھمکی دے کر مجھے روک لیتا تھا ، بادل نخواستہ بات کرنی پڑ جاتی تھی پھر اچانک ایک دن شام کے وقت اس نے مجھ سے ملنے کی فرمائش کی ، میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ایک تو رات کو ملنا ہی غلط دوسرا کسی رشتے کے بغیر ہمارا ہی نہیں بلکہ ہر لڑکے اور لڑکی کا تنہا ملنا ٹھیک نہیں ، میرا انکار سن کر وہ تھوڑا اکھڑ سا گیا کہ کیا یار ؟ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ، کوئی کھا تھوڑی جاؤں گا ، تم بھی نا ، بس حد کرتی ہو میں نے نرمی سے کہا کیونکہ یہ غلط ہے ، جب دو لڑکا لڑکی اکیلے ہوں تیسرا شیطان ہمیشہ بیچ میں رہتا ہے وہ بولا غلط ہے تو فیس بک جوائن کیوں کی تھی ؟؟ بیٹھتی نا پردے میں ، یہاں تو یہی کچھ ہوتا ہے ! میں نے بھی غصے میں جواب دیا کہ فیس بک پر اگر غلط لڑکیاں آتی ہیں تو آپ بھی تو آتے ہیں ، اسکا مطلب آپ بھی برے ہیں ؟ بکواس بند کرو ، میرا طنزیہ جواب سن کر وہ تڑپ کر بولا ، مجھے پتا ہوتا تم ایسی ہو تو کبھی تم کو منہ نہ لگاتا ، سالی نے ہوٹل کے کمرے کی بکنگ پر اتنے پیسے ضایع کروا دئیے میرے ، اب واپس بھی نہیں ہوں گے اسکی اس بات پر میں جیسے پتھر کی ہو گئی ، نجانے کب میری آنکھوں سے دو آنسو گرے ، شائد شکرانے کے کہ میرے رب نے مجھے کسی غلیظ گھڑے میں گرنے سے پہلے ہی بچا لیا ! میری بہنو ! میں نے تو اپنا سبق سیکھ لیا کیونکہ میری سوچ کو بنانے والی میری ماں تھی ، وقتی طور پر میرے قدم لڑ کھڑائے ضرور مگر الحمدلله میرے الله نے مجھے بر وقت بچا لیا اب آپ سب لوگوں سے درخواست ہے کہ فیس بک یا نیٹ کا غلط استعمال نہ کریں پلیز ! نیٹ پر ملنے والا ہر شخص شریف نہیں ہوتا ، تنہائی میں کبھی کسی مرد کو نہ ملیں ، خود کو برباد ہونے سے بچائیں ، آپ لوگ یہاں محبت کا کھیل نہ کھیلیں ، اگر ملن ممکن ہو سکتا ہے تو نکاح کا حلال رشتہ جوڑیں ، حرامکاری جیسے گناہ سے بچیں ! جو لڑکا آپ کی صحیح معنوں میں عزت کرتا ہو گا وہ باعزت طریقے سے آپ سے رشتہ جوڑے گا ! اپنے فارغ وقت کو کچھ اچھا سیکھنے میں صرف کیجئے ! انٹرنیٹ پر پیار محبت یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں ،نہ تو پیار ایسے ہوتا ہے نہ ہی دوستی !!! یہ سب خیالی دنیا ہے اور حقیقت بہت مختلف ہوتی ہے 

اردو شاعری


تما م دن میں پریشانیوں میں پھرتا رہا
کہ چاند شام کو کتنا ا داس کر دے گا....

صبح


صبح کے وقت جو کلیوں نے چٹک کرکہدی
بات چھوٹی سی ہے لیکن ہے بڑے کام کی بات

زندگی ایک کرائے کا گھر ہے-


زندگی ایک کرائے کا گھر ہے- ہدایت الرحمان

آج کئی دوستوں کی طرف سے پیغامات ملے آپ 23 سال کے ہوگئے ہیپی برتھ ڈے اس پیغام نے مجھے ایک کشمکش میں مبتلا کردیا کیا واقعی میں 23 سال کا ہوگیا مجھے تو سمجھ نہیں آرہا کہ میں نے 23 سال کہاں گزارے کیسے گزارے۔ میں اپنے بچپن کے طرف لوٹنا چاہتا ہو لیکن یہ ابھی ناممکن ہے میں سوچوں میں گم اپنے گزرے ہوئے لمحوں سے گزر رہا ہو تو مجھے ہر جگہ ایک کشمکش کا سامنا ہورہاہے یہ کشمکش جو ہر انسان کی دنیا آمد پر شروع ہوجاتی ہے یہ ہے زندگی اور موت کی زندگی یہ ثابت کرنے میں لگی دیکھی کہ بس یہ دنیا صرف میری لئے ہے کیونکہ میں نے تو مال ودولت جمع کرنا ہے میں نے تو اس دنیا سے ابھی تک کوئی لطف نہیں اٹھا یا میں نے تو آنے والے وقت کے لئے بہت منصوبے بنا رکھی ہے مجھے تو ابھی کافی کام کرنی ہے

لیکن گزرے لمحوں میں کئی ایسے واقعات کا سامنا ہوا کہ موت ایک حقیقت ہے میں موت کو بار بار دیکھتا ہو تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ موت زندگی کو باربار تنبیہ دے رہی ہے اے زندگی تجھے ہر حال میں ہارنا ہے اور مجھے لازمی جیتنا ہے تو ہزار منصوبے بنادیں لیکن میں نے تجھے ہر حال میں مات دینی ہے
میں عنقرب آنے والا ہو
کیا واقعی میں مرجاونگا
میرے انکھیں یہ الفاظ برداشت نہ کرسکے اور تیزی سے آنسو بہانا شروع کیا میں کوشش میں تھا کہ کس طرح آنسووں کے قطروں کو ضبط کرسکوں لیکن میں ناکام رہا آنسو پورا فنا ہوجاتا ہے ایسا محسوس کررہا ہو کہ موت مجھ سے مخاطب ہے کہ دیکھا تو نے میرے بدولت تجھے اسی طرح فنا ہونا ہے اور یہ آنسو یہ زندگی ہے جو تجھے دھوکہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں موت کے اس دلیل نے مجھے خاموش کردیا میں پریشان ہوا لوگ پھر کیوں مجھے ہیپی برتھ ڈے کہہ رہے ہیں یہ تو میرے ساتھ مذاق ہے کہ مجھے موت کے قریب ہونے پر خوش ہونے کا کہہ رہے ہیں۔
حقیقت میں موت ضرور ایک دن جیتنی والی ہے جو مجھے اس دار فانی سے ہمیشہ کے لئے فنا کردیگا
دنیا میں 23 سال جو مجھے موت کے بہت قریب لے گیا اور زندگی کو بہت پیچھے چوڑ دیا
اللہ تعالی میرے اس 23 سالہ زندگی میں کئے ہوئے نیکیوں کو شرف قبولیت دیں اور میرے گناہوں پر درگزر فرمادیں
زندگی اور موت کی اس کشمکش میں میرے زندگی کو سعادت اور میرے موت کے حصے میں شہادت نصیب ہو۔ آمین

Friday, 6 June 2014

#HappyBirthday

#HappyBirthday #6June زندگی ایک کرائے کا گھر ہے
ایک نہ ایک دن بدلنا پڑیگا
آج کئی دوستوں کی طرف سے پیغامات ملے آپ 23 سال
کے ہوگئے ہیفی برتھ ڈے اس پیغام نے مجھے ایک کشمکش میں مبتلا کردیا کیا واقعی میں 23 سال کا ہوگیا مجھے تو سمجھ نہیں آرہا کہ میں نے 23 سال کہاں گزارے کیسے گزارے۔ میں اپنے بچپن کے طرف لوٹنا چاہتا ہو لیکن یہ ابھی ناممکن ہے میں سوچوں میں گم اپنے گزرے ہوئے لمحوں سے گزر رہا ہو تو مجھے ہر جگہ ایک کشمکش کا سامنا ہورہاہے یہ کشمکش جو ہر انسان کی دنیا آمد پر شروع ہوجاتی ہے یہ ہے زندگی اور موت کی زندگی یہ ثابت کرنے میں لگی دیکھی کہ بس یہ دنیا صرف میری لئے ہے کیونکہ میں نے تو مال ودولت جمع کرنا ہے میں نے تو اس دنیا سے ابھی تک کوئی لطف نہیں اٹھا یا میں نے تو آنے والے وقت کے لئے بہت منصوبے بنا رکھی ہے مجھے تو ابھی کافی کام کرنی ہے

لیکن گزرے لمحوں میں کئی ایسے واقعات کا سامنا ہوا کہ موت ایک حقیقت ہے میں موت کو بار بار دیکھتا ہو تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ موت زندگی کو باربار تنبیہ دے رہی ہے اے زندگی تجھے ہر حال میں ہارنا ہے اور مجھے لازمی جیتنا ہے تو ہزار منصوبے بنادیں لیکن میں نے تجھے ہر حال میں مات دینی ہے

میں عنقیب آنے والا ہو

کیا واقعی میں مرجاونگا

میرے انکھیں یہ الفاظ برداشت نہ کرسکے اور تیزی سے آنسو بہانا شروع کیا میں کوشش میں تھا کہ کس طرح آنسووں کے قطروں کو ضبط کرسکوں لیکن میں ناکام رہا آنسو پوراَ فنا ہوجاتا ہے ایسا محسوس کررہا ہو کہ موت مجھ سے مخاطب ہے کہ دیکھا تو نے میرے بدولت تجھے اسی طرح فنا ہونا ہے اور یہ آنسو یہ زندگی ہے جو تجھے دھوکہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں موت کے اس دلیل نےمجھےخاموش کردیا میں پریشان ہوا لوگ پھر کیوں مجھے ہیفی برتھ ڈے کہہ رہے ہیں یہ تو میرے ساتھ مذاق ہے کہ مجھے موت کے قریب ہونے پر خوش ہونے کا کہہ رہے ہیں۔

حقیقت میں موت ضرور ایک دن جیتنی والی ہے جو مجھے اس دار فانی سے ہمیشہ کے لئے فنا کردیگا

دنیا میں 23 سال جو مجھے موت کے بہت قریب لے گیا اور زندگی کو بہت پیچھے چوڑ دیا

اللہ تعالیٰ میرے اس 23 سالہ زندگی میں کئے ہوئے نیکیوں کو شرف قبولیت دیں اور میرےگناہوں پر درگزر فرمادیں

زندگی اور موت کی اس کشمکش میں میرے زندگی کو سعادت اور میرے موت کے حصے میں شہادت نصیب ہو۔ آمین
تمام دوستوں کاشکریہ

Wednesday, 21 May 2014

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا


تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا

ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا

سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا

جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا

ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا

یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا

اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا

نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا

یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا

سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا

جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا

Wednesday, 14 May 2014

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور​ عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں​ (مولانا الطاف حسین حالی)​

ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور​
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں​
(مولانا الطاف حسین حالی)​

Saturday, 10 May 2014

خواب

نئے دور کے نئے خواب ہیں،نئے موسموں کے گلاب ہیں 
یہ محبتوں کے چراغ ہیں، انھیں نفرتوں کی ہوا نہ دے 
ذرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب 
تیرا نام لکھا ہے ریت پر! کوئی لہر آکر مٹا نہ دے

موسم

کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں
کبھی دل کے صفحے پر
تجھے تصویر کرتے ہیں
کبھی پلکوں کی چھاؤں میں
تجھے زنجیر کرتے ہیں
کبھی خوابیدہ شاموں میں
کبھی بارش کی راتوں میں
کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں

مسافر

یہ کس مسافر کے منتظر ہیں کہ میری بستی کے لوگ سارے
ہتھیلیوں پر چراغ لے کر روِش روِش پر کھڑے ہوئے ہیں
شجر بھی شاید پکار اٹھیں، حجر بھی شاید زبان کھولیں
مگر ہم اہلِ صفا کے ہونٹوں پہ جیسے تالے پڑے ہوئے ہیں

زخمِ

زخمِ امید بھر گیا کب کا
قیس تو اپنے گھر گیا کب کا

آپ اک اور نیند لے لیجئے
قافلہ کُوچ کر گیا کب کا

دکھ کا لمحہ ازل ابد لمحہ
وقت کے پار اتر گیا کب کا

اپنا منہ اب تو مت دکھاؤ مجھے
ناصحو، میں سُدھر گیا کب کا

نشہ ہونے کا بےطرح تھا کبھی
پر وہ ظالم اتر گیا کب کا

آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں؟
دل میری جاں، مر گیا کب کا

Friday, 9 May 2014

درد

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر​
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے​

Sunday, 4 May 2014

یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں


یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں 
ان میں کچھ صاحبِ اسرار نظر آتے ہیں

مرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی میری دے گا ساغر
سب تمھارے ہی طرفدار نظر آتے ہیں

ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایاتھا لہو

ہے دعا یاد مگرحرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

ہم نے جن کے لیے راہوں میں بچھایاتھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

میں نے پلکوں پہ درِ یار سے دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
کسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا مجھ سے خفا یاد نہیں

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں​

Saturday, 3 May 2014

😏

(Y)


سمجھ گیا

کہوں کس سے قصۂ درد و غم
کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے

تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے

یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے

وہ نظرجو مجھ سے ملا گئے، تو یہ اور آفتیں ڈھا گئے
کہ حواس و ہوش وخرد ہے اب، نہ شکیب و صبر و قرار ہے

مری چشم کیوں نہ ہو خوں فشاں، نہ رہی وہ بزم نہ وہ سماں
نہ وہ طرزِ گردشِ چرخ ہے، نہ وہ رنگِ لیل و نہار ہے

جہاں کل تھا غلغلۂ طرب، وہاں ہائے آج ہے یہ غضب
کہیں اِک مکاں ہے گرا ہوا، کہیں اِک شکستہ مزار ہے

غم و یاس و حسرت و بے کسی کی ہوا کچھ ایسی ہے چل رہی
نہ دلوں میں اب وہ امنگ ہے، نہ طبیعتوں میں ابھار ہے

ہوئے مجھ پہ جو ستمِ فلک، کہوں کس سے اس کو کہاں تلک
نہ مصیبتوں کی ہے کوئی حد، نہ مرے غموں کا شمار ہے

مرا سینہ داغوں سے ہے بھرا، مرے دل کو دیکھیے تو ذرا
یہ شہیدِ عشق کی ہے لحد، پڑا جس پہ پھولوں کا ہار ہے

میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر ان کی راہ میں ہوں فدا
مجھے خاک میں وہ ملا چکے، مگر اب بھی دل میں غبار ہے

مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے، کہ تو جس کا عاشقِ زار ہے

Friday, 2 May 2014

شتر بے مہار (اشک قلم) ہدایت الرحمن حسن


شتر بے مہار
(اشک قلم)
ہدایت الرحمن حسن
روزنامہ میزان عدل 
http://www.meezaneadel.com/idariya/imran%20rajpoot.jpg
بس میں سوار اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھاراستے میں ڈرئیور کے جگہ جگہ سٹاپ کرنے پر انتہائی تنگ ہورہا تھا۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے ایک کھلے میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ میدان میں ایک بچہ ہاتھ کے بنائے ہوئے بلے کو ہاتھوں میں مسلسل گھما رہا ہے۔ میری نظریں بچے پر پڑیں تو سوچتا ہوں کہ یہ بچہ کیا رہا ہے کہ اچانک کنڈکٹر نے آواز لگائی ٹائر پنکچر ہو گیا ہے اور کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے اپنی توجہ اس بچے کی طرف مرکوز کر دی۔ بچہ ایک کنکر اُٹھا کر اوپر پھینکتا ہے پھر بلا گھوما کر کنکر کو ماردیتا ہے۔ یہ سلسلہ شروع رہتا ہے اور میں بھی ایک تماشائی بن کر یہ انوکھا میچ دیکھ رہا ہوں کہ اچانک بچے نے ہاتھ اور بلے کو اٹھا کر ہوا میں لہرا یااور پھر سر بسجدہ ہوگیا اور سجدے سے اٹھ کر آسمان کے طرف دیکھ کر اندازِ شکر اپنایا ۔بچے نے مجھے سوچوں میں گھمادیا کہ پہلے سجدہ اور پھرآسمان کی طرف دیکھ کر اندازِ شکر؟ 
اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد قریبی گراونڈمیں بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے آج بچوں کا انداز کچھ مختلف تھی لیکن کہانی ملی جلی تھی باؤلر رننگ شروع کرتے ہوئے امپائر کو کراس کرکے بال پھینکتاہے اور بیٹسمین بال مِس کرتا ہے اور بلز گرجاتے ہیں' آوٹ کرنے والا باؤلر مکے مار کر آوٹ ہونے والے کھلاڑی کو گالیا ں دیتے ہوئے زور زور سے چیخ رہا ہے۔ 
یہ دونوں واقعے میں نے اتفاقاً دیکھے اور شائد آپ نے بھی کچھ اس طرح دیکھا ہوگا دونوں واقعات میں ہمارے لئے ایک خاص بات پوشیدہ ہے جسے اس وقت صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے' دونوں کے انداز کرکٹ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ پیغام بھی مختلف ہیں۔
آخر کار بچے نے سیکھا کیسے کے سنچری بنانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا اور سربسجدہ ہونا اور آوٹ کرنے پر گالیاں دینا لازمی بات ہیں؟ کیا ان بچوں نے گھر میں اپنے بڑوں سے تو ایسا نہیں سیکھا؟ لیکن ہاں گھر میں ایک ایسا استاد ضرور موجود ہے جس سے یہ سبق (لیکچر) ان بچوں نے سیکھا ہوگا۔ یہ استاد کون ہے؟ اسے ہم سب آج کل ٹی وی کے نام سے جانتے ہیں ہمارے بچے اپنے حقیقی استاد سے کم سیکھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ اس رنگین استاد سے زیادہ سیکھتے اور عمل کرتے ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا اور غور کیا ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کیا دیکھا رہے ہیں ؟ آخر ہم ٹی وی اور انٹرنیٹ سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ کیا کبھی سوچا ہے کہ کیبل پر چلنے والے ڈرامے اور پروگرامات ہماری اخلاقی حدود تو کراس نہیں کرتی اگر حد پار کرتی ہیں تو ہم خاموش کیوں ؟
آج کل میڈیا جس تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے اس سے بچوں پر بھی میڈیا کے دئے ہوئے پیغامات اثر پذیر ہورہے ہیں ۔ تمام ٹی وی چینلز انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں ہمیں بے ہودہ محبت کی کہانیاں بناکر مجبور کر رہیں کہ اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو ایسا ہی کرنا پڑے گا' یہ بے ہودہ محبت جسے سیکھ کر کئے گھر اجڑے گئے اور خدا نہ کرے اگر یہی صورتحال رہی تو مزید کئی گھر اُ جڑیں گے ۔اس طرح اگر ہم نیوز چینلز کو دیکھ لیں تو ٹاک شوز پر سیاست دانوں کی گرما گرم بحث سے ہٹ کر اپنی نیوز میں ملک کے کسی اہم مسلئے کا ذکر کریں یا نہ کریں لیکن ہالی ووڈ و بالی ووڈ یا کسی کالج یونیورسٹی میں ہونے والے فیشن شوکا ذکرتو ضرور کرنا ہوگا ۔ ان سارے معاملات سے ہٹ کر اشتہارت اگر دیکھ لئے جائیں تو فحاشی کی بھرمار دیکھنے کو ملے گی ۔عریاں عورتوں کے ڈارمے اور اشتہارات دکھاکر ہمیں کیا سبق دینا چاہتے ہیں؟ کیا اشتہارمیں عریاں عورت کے نہ آنے سے مصنوعات کو خرید نے سے کوئی بائیکاٹ کرلیگا؟
آج جس تیزی کے ساتھ دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے میڈیا اور انٹرنیٹ عروج پر ہیں جتنی تیزی سے دنیا کی ترقی سامنے آرہی ہے اسی طرح فحاشی وعریانیت عروج پر ہیں۔ فحش فلمیں اور اشتہارات اس قدر زیادہ ہیں کہ جس کے وجہ سے ہم نام نہاد روشن خیالی کے ایسے تاریک دور سے گزررہے جس میں عمومی طور پر انسان اپنے دینی ،روحانی ،اور لطیف جذبات کو نہاں خانہ دل کے کسی ویران گوشے میں ڈال کر ہوائے نفس کے گھوڑے پر سوار مادیت پرستی کی طرف رواں دواں ہے اکثریت نے لذت اور بے ہودہ عشق بھری زندگی کو ہی اپنا اصل مقصدِ زندگی سمجھ لیا ہے اور میڈیا کے سیکھائے ہوئے مجازی عشق کو اپنی زندگی کی اصل منزل سمجھ لیا ہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ خواہشِ نفس پوری ہونی چاہئے خواہ جیسے بھی ہو ،شرم وحیاء جیسی صفات ختم ہوچکی ہیں، فحاشی وعریانیت کا ایک طوفان ہے جس نے آج وطنِ عزیز کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے جس کے کئی ثبوت ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر بھی کئے جاچکے ہیں اور نشر کئے جارہے ہیں۔
مغرب اور انڈیا کی فلمیں،فحش ویب سائٹس تک رسائی آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انتہائی آسان بنادئیے گئے ہیں جس کے وجہ سے آج مسلمان اور خاص کر نوجوان نسل اپنی حقیقت کو ہی بھول گئی ہے یہ وہ قوم تھی جس کے جوانوں کو کبھی ذکر اللہ کی مستی، سجدوں کی لذت ، اللہ تعالیٰ کے خوف، قیام الیل کے شوق اور علم کے ذوق دن رات مصروف رکھتے تھے،جس کے چہرے عبادت کے نورکی چمک اور معرفت کے نور کی دمک سے رخشندہ وتابندہ ہواکرتے تھے لیکن آج ہماری اپنے کوتاہیوں کے سبب مغربی سوچ اور ثقافت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ اگر اس طرح ٹی وی چینلز پر فرسودہ عشق اور محبت کی ایسی فرضی کہانیا ں دکھائی جاتی رہیں جس کے سبب نوجوان نسل حصول علم کے بجائے فرسودہ عشق اور محبت کے لئے کوشاں ہیں تو پھر اپنے اس مستقبل سے امید رکھنا بے کار ہے۔
فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً ڈش، کیبل، اور انٹرنیٹ کی فحش سائٹس ،فلیکس بورڈ کے ذریعے اشتہار وغیرہ کو کنٹرول کرنا حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ وفاقی ادارہ پیمرا کے ذریعے اس طوفان کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ حکومت جس تیزی کے ساتھ ملک کے ہر گھر تک انٹرنیٹ کے حصول کو ممکن کرنا چاہتی ہے اور 3Gٹیکنالوجی بھی لانچ ہورہی ہے تواس قدر فحاشی کو فروغ دینے والے ویب سائٹس کو بلاک کریں ایسے ٹی وی چینلز پر پابندی لگائی جائے یا مستقل کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے جس کے ذریعے آج کے اس شتر بے مہار میڈیاجوہمارے آنے والے کل کو کاری ضرب لگانے پہ تلے ہوئے ہیں لگام دی جا سکے۔ میری حکومت سے التجا ء ہے کہ خدا کے لئے اس نوجوان نسل کے مستقبل پر زراہ سوچیںکیونکہ یہ بڑھتی ہو ئی فحاشی نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل کی طرح ہے اگر اسے آج قابو نہ کیا گیا تو پھر آنے والے کل کو اس پر قابو پانہ مشکل ہی ناممکن ہو جائے گا ۔

Monday, 28 April 2014

محبت گولیوں سے

محبت گولیوں سے‘ بو رہے ہو 

وطن کا چہرہ‘ خُوں سے دھو رہے ہو 

گُماں تم کو‘ کہ رستہ کٹ رہا ہے 

یقین مجھ کو‘ کہ منزل کھو رہے ہو”

Saturday, 26 April 2014

تو نے خلوت میں جو آنے کی قسم کھائی ہے۔۔۔ ۔۔مولانا مشرف علی تھانوی

تو نے خلوت میں جو آنے کی قسم کھائی ہے 
اب تو آجا کہ شب تار ہے تنہائی ہے

دل وہی دل ہے جو بس تیرا تمنائی ہے 
تیرا جلوہ ہی مری آنکھ کی بینائی ہے

عشق میرا تری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں 
مقصد زیست ترے در کی جبیں سائی ہے

میری آنکھوں کے لئے جوہرِ بیداد ہے تو 
میرے دل کے لئے تو حسن کی رعنائی ہے

تو مرے خوابوں کی تعبیر ہے اے میرے خدا
میرا ہمدم ہے مرا مونس تنہائی ہے

تجھ کو دیکھے یہ مری آنکھ کا یارا ہی نہیں 
دل میں آ جائے تو یہ تیری پذیرائی ہے

عجب فیض ہے آقا ﷺتیری محبت کا



عجب فیض ہے آقا ﷺتیری محبت کا
درود تُجھ پر پڑھوں اور خود سنور جاؤں


کفن پہناؤ تو خاکِ مدینہ مُنہ پہ مَل دینا
یہی بس ایک صُورت ہے خُدا کو مُنہ دِکھانے کی


مزہ دیتی ہیں زندگی کی ٹھوکریں اُن کو محسنؔ
جنہیں نامِ خُدا لے کر سنبھل جانے کی عادت ہو


سجدوں کے عوض فردوس ملے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں تیرا، مزدور نہیں
__________________

علیم صبا نویدی کے کلام سے انتخاب

علیم صبا نویدی کے کلام سے انتخاب

ایک عالم میں رہا میرا وجود
سات عالم میں رہا میرا سفر

ظاہراً روشن تھے سب کے سب یہاں
اپنے باطن میں منور کون تھا

کہیں ظاہر میں وہ نہیں موجود
پھر یہ باطن میں شان کس کی ہے

لہو لہو ہوا ہے جب سے یہ آسمانی سفر
نظر میں رشتہء فکرِ سُراغ جاگا ہے

میں نہ تھا تو میرے اندر کون تھا
قطرہ قطرہ اک سمندر کون تھا

میں تو باہر ہوں ہر طرف موجود
پھر یہ اندر کا سلسلہ کیا ہے؟

جو سماں باہر ہے میرے، وہ سماں اندر نہیں
لامکاں باہر ہوں لیکن لامکاں اندر نہیں

ایک قطرے میں ہیں سمندر کے بھید
آخری حد چھو گیا پہلا سفر

وہ قطرہ جو وسعت میں تھا کائنات
سمندر کے سینے کی دھڑکن ہوا

میں اندھیرا تھا تو پس منظر میں پھر
ضو فشاں، اندر یہ منظر کون تھا

میرا رشتہ، ان مٹ رشتہ
میں ہی میں ہوں، ازل ابد میں

جسم مٹی کا ڈھیر ہے لیکن
ذات کا دائرہ منور ہے

میں نے دیکھی جو کائناتِ دل
میرے اندر بھی آسماں نکلا

Friday, 25 April 2014

کہاں تک ساتھ دو گے تم

کہاں تک ساتھ دو گے تم بتاؤ تو ! مجھے بھی کچھ تسلّی ہو جوانی کے میلوں تک یا لا شعور کھیلوں تک بتاؤ تو ! کہاں تک ساتھ دو گے تم میرے بدنام ہونے تک یا پِھر گمنام ہونے تک مجھے بھی کچھ تسلّی ہو بتاؤ تو !

چمکتا چاند سا چہرہ

چمکتا چاند سا چہرہ کھنکتا شو خ سالہجہ دیے جلتے ہیں آنکھوں میں بڑی شوخی ہے باتوں میں فضائیں دیکھ کر اس کو خوشی سے جھوم جاتی ہیں چمکتی رات اسکے نین میں سپنے جگاتی ہے ۔ ۔ ۔ تمازت دھوپ کی چہر ے پہ اسکے گل کھلاتی ہے ۔ ۔ ۔ کبھی بارش کے موسم میں سہانے کھیل کشتی کے کبھی گڑیوں کی شادی ہو کبھی گیتوں کی بازی ہو یہ ہر دم پیش رہتی ہے بڑی الہڑ سی لڑکی ہے یہ کتنی شو خ لڑکی ہے ؟

Jarga System


Ikhwan


باغ جنت کی نازنی

وہ باغ جنت کی نازنی جو تمہاری دلہن بنی کھڑی ہے
تمہی تو دلہا ہو دیرکیسی یہ سرخ مہندی لگا کے دیکھو
نہیں ہے ناداں کو کچھ خبر یہ شعور والے ہی جانتے ہے 
خدا کے جو میزبانیاں ہیں وفا کی رسمیں نبا کے دیکھو

Wednesday, 5 March 2014

Oooooo!


> تو آج پھر یاد آرہا ہے!

> تو آج پھر یاد آرہا ہے!
> باپ کے شفقت اور محبت کا اندازہ ہم سب کو ہے لیکن مجھے یہ اندازہ ایک سال پہلے ہوا. باپ حقیقی ہو یا روحانی ان دونوں کے شفقتوں میں تهوڑا بہت فرق ہے حقیقی باپ کی شفقت تاحیات ہوتی ہے اور روحانی باپ کی شفقت تا نگاہ ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ اس طرح بهی آئے جو لاکھوں لوگوں کے روحانی باپ بن گئے اور ایسے بن گئے  کہ لوگ اپنے حقیقی باپ سے اس روحانی باپ کے ساتھ زیادہ محبت کرنے لگے .
> پچھلا سال آغاز میں ہی ہمارے روحانی باپ قاضی حسین احمد کو ہم سے چهینے میں کامیاب ہوا لیکن اس روحانی باپ سے محبت دل میں اتنی راسخ ہو ئی کے آج بهی وہی ہنستا مسکراتا چہرہ میرے نظروں میں اچهل رہاہے اور مخاطب ہے میرے بیٹوں، میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہ رہا لیکن انشاءاللہ جنت میں سب سے ملاقات ہوگی .
> قاضی حسین احمد رحمتہ اللہُ علیہ جو آج سے ایک سال قبل اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے. جس کے بارے ہزاروں لوگوں سے سنا انکے بیٹے اصف بهائی اور بیٹی سمیحہ باجی سے ملاقات بهی ہوئی ، کالمز بهی پڑھ کر اندازہ ہوا کے واقعی ہم ایک عظیم شخصیت کو کهوبهیٹے ہیں.اور شائد جس کے لئے شاعر نے کہا تها کہ 
> ہزاروں سال نرگس اپنے بے نوری پہ روتی ہے
> بڑے مشکل سے ہوتی ہے چمن میں دیدہ ور پیدا 
> سمیحہ باجی سے گفتگو کے دوران بار بار آغاجان، میرا دل باجی کے کالم آغاجان میرے سائبان دل سے تسلیم کرنے لگا کہ واقعی آغاجان ایک سائباں تهے لیکن اکیلے اصف بهائی اور سمیحہ باجی کے نہیں لاکھوں بیٹوں اور بیٹیوں کے سائباں تهے جس کی محبت اور شفقت بهرے  آواز کے آج بهی لاکھوں لوگ گرویدہ ہیں جسے سن کر میں بهی دل کو تسلی دے دیتا ہوں کہ انشاءاللہ جنت ہی میں ملاقات ہوگی.

ہرے معیار اور ان کے ثمرات


دہرے معیار اور ان کے ثمرات !!
by 
تحریر : افشاں نوید
آج صبح واک پر نکلنے میں کچھ تاخیر ہوگئی، سوواپسی میں دو طرفہ روڈ کے دونوں جانب تعلیمی اداروں کی گاڑیوں کی چہل پہل ہوگئی۔ پینٹ شرٹ ٹائی لگائے صاف ستھرے اسکول کے بچے جن کی پشت پر بیگ لٹکے ہوئے تھے اور کاندھوں پر پانی کی بوتلیں اور قمیض کی جیب پر اسکول کے مونوگرام۔ بچیاں کچھ وی کی شکل میں دوپٹے لئے ہوئے کچھ سروں پر اسکارف انکی پشت پر بھی کم وبیش انہی کے وزن کے بیگ کچھ کے ہاتھوں میں لنچ باکس یا جوس کے ڈبے۔ یہ روشن پیشانیاں اور چمکتے ہوئے چہرے جو پاکستان کا مستقبل ہیں۔ روڈ کے دونوں اطراف کچھ کچھ فاصلے پر سفید کوٹس میں میڈیکل کالجز کی طالبات اور یونیفارم سے بے نیاز لیکن بہت سلیقے سے تیار یونیورسٹی کی طالبات ۔ یکے بعد دیگرے پوائنٹس کی بسیں رک رہی تھیں اور میں اپنے یونیورسٹی کے دور میں پہنچ گئی۔ زمانہء تعلیم کوئی بھی کبھی نہیں بھولتا۔ گاڑیوں کے شور اور اپنے ماضی کا رابطہ سے جوڑنے کی کوششوں میں اچانک میری نظر قدرے دائیں جانب بڑے سے میدان پر مرتکز ہوگئی۔

یہ محلے کی بڑی جامع مسجد اور مدرسہ کے باہر کا منظر ہے۔ بہت بڑا مدرسہ جہاں ملک بھر سے پڑھنے بچے آتے ہیں شلوار قمیضوں میں ملبوس بچے قطاریں بنا رہے تھے۔ سروں پر ٹوپیاں تھیں۔ سب کے لباس شکنوں والے تھے۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ رات کا لباس تبدیل کئے بغیر اپنی کلاس رومز میں چلے جاتے ہیں۔ زیادہ تر کے لباس سفید یا کریمی مائل تھے۔ میں تجسس میں کچھ اور قریب چلی گئی۔ اب ان بچوں نے ایکسرسائیز شروع کردی۔ اس دوران ان کے استاد نمودار ہوئے ۔ جو چہرے مہرے سے پٹھان لگ رہے تھے۔ کندھے پر سرخی اور سفیدی مائل صافہ تھا دھاری دار ۔ سر پر ٹوپی۔ وہ بھی ملگجے سے لباس میں ملبوس لیکن چاق وچوبند نظر آرھے تھے۔ وہ طلباء کو جنکی تعداد 200سو یا کچھ زائد ہی ہوگی پشتو زبان میں ہدایات دینے لگے اور طلباء اٹھک بیٹھک کے انداز میں انکدی ہدایات پر مشق آگے پڑھاتے رھے۔ میرا اس عمل میں اتنا انہماک میرے شوہر کو پسند نہ آیا اور ہم تیز تیز قدم اٹھاتے گھر کی سمت چل پڑے۔ ٹائی لگاکر گاڑیوں میں بیٹھ کر جانے والے بچے اور مدرسہ کے باہر گراؤنڈ میں یہ بچے بالکل ہم عمر ہیں ۔یہ سب اسکول کی عمر کے بچے ہیں۔ دونوں بظاہر دن کے آغاز میں حصول علم میں مشغول ہوجائیں گے۔

یہ دو طرح کے تعلیمی نظام جو مائنڈ سیٹ پیدا کررہے ہیں وہی شاید ہمارے سماج کا سب سے بڑا المیہ اور ہر مسلئے کی جڑ ہے۔ دینی اور دنیوی علوم دو الگ الگ بہنے والی نہریں ہیں۔ یہ مغرب کا تحفہ اور سیکولرازم کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ بلکہ یہ دو الگ الگ نظام ہائے تعلیم ہی سیکولرازم کے فروغ کا باعث ہیں۔ آج بھی ہمارے ہاں علماء کرام کا ایک گروہ یہ سمجھتا ہے کہ دنوں نظام ہائے تعلیم الگ الگ برقرار رہنا چاہئیں اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اپنی اس سوچ سے وہ حقیقتاً سیکولرازم کے فروغ کیلئے کام کررہے ہیں۔ یہ لادینیت جو اسوقت کا سب سے بڑا فکری اور نظریاتی فتنہ ہے کہ دنیا کے معاملات دنیا داروں کے پاس رہیں اور وہ دین اور مذہب کی رہنمائی سے آزاد رہیں ، جو مذہب ہے وہ ایک دائرے میں سمٹا رہا اور زندگی کا جزبن کر گویا ریل کی دو پٹڑیاں ہیں جو متوازی تو چلیں گی مگر باہم مل نہیں سکتیں۔
دراصل جب مسلم معاشرے کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن گئی اس وقت ان کے پاس اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ وہ اسلامی علوم اور فنون اور تہذیب کو بچانے کی کسی نہ کسی درجہ میں فکر کریں یہ دینی نظام تعلیم ایک دفاعی حکمت عملی تھی کہ مسلمان بالکل مغرب کے رنگ میں نہ رنگ جائیں۔ کیونکہ انکی تہذیب ایک غالب تہذیب ہے لہٰذا مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو کسی طرح بچایا جائے ورنہ اس سے ماقبل کبھی دینی اور دنیاوی تعلیم کے الگ الگ نظام تھے ہی نہیں ۔ ایک ہی نظام تعلیم بیک وقت علما، مجدد، ڈاکٹر، انجنیئرز اور سوشل سائنسز کے ماہرین تیار کررہا تھا۔ مجدد الف ثانی اسکی بڑی مثال ہیں۔ پھر شیخ احمد سرہندی جو سلطنت مغلیہ کے وزیراعظم بنے وہ بھی مغلیہ دور کے اسی نظام تعلیم کی پیداوار تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایک وسیع سلطنت کا نظام انہوں نے شاہ جہاں کے زمانے میں کسی سیاسی فہم وبصیرت سے چلایا۔ صرف مجدد اور سیاستدان ہی نہیں بلکہ تاج محل بنانے والے استاد احمد اسی نظام تعلیم کے پروردہ تھے

جنہوں نے دنیا کے سات عجائبات میں ایک عجوبہ بنایا۔ وہی نظم تعلیم ، نصاب تعلیم اور تعلیمی روایت یقیناہمارا سرمایہ تھی جو دنیا اور دین کی تخلیص کے بغیر اتنے اعلیٰ پائے کے افراد مہیا کررہی تھی۔ جب ڈاکٹرز، انجنئیرز ساتھ ساتھ عالم دین بھی ہوتے تھے۔ اور عالم دین سائنسی اور سماجی علوم سے آشنا۔
ہماری بدقسمتی یہی ہے اور آج معاشرے میں جو واضح طور پر طبقاتی تقسیم ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ آج تک یہ سوچا ہی نہیں گیا پاکستانی معاشرے کو کس طرح کے اہل علم درکار ہیں اور ایک اسلامی ریاست کی تعمیر نو کیلئے کیسے ماہرین درکار ہونگے۔ اگر ہم یہ مسئلہ اس وقت بھی حل کرلیں تو ملک وملت پر بہت بڑا احسان ہوگا۔کیونکہ یہ فصیلیں دن بدن بڑھ رہی ہیں۔ مدارس میں پڑھنے والے وہ لاکھوں معصوم طلباء جو اتنا وقت اور صلاحیتیں اس تعلیم میں صرف کررہے ہیں جتنا بیکن ہاؤس سسٹم میں پڑھنے والے طلباء اور طالبات ۔لیکن سر پر عمامہ، ٹخنوں تک شلوار ، مشت بھر داڑھی انہیں سماج اجنبی بنائے ہوئے ہے۔ انکے بارے میں تاثر یہی ہے کہ یہ اپنے خول میں بند رہنے والے سائنسی اور سماجی علوم سے نابلد لوگ ہیں۔ سیاستدان، بیوروکریٹ، صنعتکار ، ماہر فزیشن یا کسی شعبہ کا ماہر ہونے کیلئے سوٹڈبوٹڈ اور کلین شیو ہونا لازمی ہے کہ دنیا داری ان لوگوں کا کام ہے جو دنیاوی علوم سے آگاہ ہیں۔ اسلئے ایوانِ اقتدار میں دنیا پرست براجمان رہیں اور مساجد ومنبر ومدرسہ علماء آباد رکھیں۔ یا دنیاوی علوم کے ماہرین کو نظام سلطنت چلاتے ہوئے کبھی کبھی جب دینی رہنمائی پڑے گی۔ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ٹائب چیز موجودرھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی تاریخ ’’دارلعلوم دیو بند‘‘کے چاروں طرف دائرے کا سفر ہی طے کریگی۔ ؟بلاشبہ برصغیر اور بالخصوص پورے جنوبی ایشیا میں پچھلے ڈیڈھ سو برس میں دارلعلوم دیوبند کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ یہ ایک دفاعی حکم عملی تھی۔ چونکہ معاشرے میں انکی قیادت اور رہنمائی کے امکانات ہی نہ تھے اس لئے اس رہنمائی کو مسجد اور مدرسہ تک محدود کردیا گیا۔ اس وقت نہ وسائل تھے نہ ہی وہاں کوئی آئیڈیل حالات تھے لہٰذا دین کو بچانے کی یہی کی کاوشیں ہوسکتی تھیں جودارلعلوم دیوبند کی صورت میں تاریخ کا روشن باب ہیں۔
لیکن ایک آزاد اسلامی ریاست میں دین کو صرف دارلعلوم میں قید رکھاجائے یہ کہاں کا انصاف ہے؟ دین کو روز مرہ معاملات میں داخل کرکے عمومی درسگاہوں میں داخل کرکے کیوں نہ قائدانہ کردار ادا کرنے کیلئے تیار کیا جائے۔ دارلعلوم معاشرے میں محض برکت کے لئے نہ ہوں وہاں سے قائدانہ کردار تیار کئے جائیں۔ اور عملاً قال اللہ ، وقال الرسول کے ساتھ ساتھ سائنسی اور سماجی علوم سے بھی کما حقہ واقفیت رکھتے ہوں اور یہ علماء پیشہ ورکالجوں اور یونیورسٹیز میں بھی طلباء طالبات کو دینی اقدار روایات سکھائیں۔ اگر ایک طرف آپ میڈیکل وانجئرنگ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء وطالبات کا حال دیکھیں اور دوسری طرف مدارس کے طلباء ۔دو بالکل الگ الگ دنیائیں ۔اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا،انداز واطوار سب کچھ ایک دوسرے سے بالکل جدا اور دونوں فریقین اپنی اپنی دانست میں احساس برتری کا شکار۔ اور ایک دوسرے کے وجود سے بڑی حد تک متنفر۔یہ کوئی نہیں کہتا کہ مدارس میڈیکل کالجز میں بدل جائیں یا انجنئیرنگ یونیورسٹیاں لادینیت کی تعلیم کیوں دے رہی ہیں۔؟؟جبکہ قیادتیں وہیں سے تیار ہورہی ہیں۔ اگر ماضی میں علوم وفنون کی اساس قرآن مجید تھا اور قرآن مجید نے وہ جڑ فراہم کی جس سے علوم کے سدا بہار گلستان پیدا ہوئے آخر ہزار برس سے زیادہ علم وتحقیق پر مسلمانوں کے جھنڈے لہرائے دنیا ودین کی تعلیم میں یہ امتیاز ہی مغرب کا وہ ہمہ گیر ایجنڈا ہے وہ ہماری جڑیں مسلسل کھوکھلی کررہا ہے ۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ ملک وملت کے مستقبل کا انحصار اسی امتیاز کے خاتمے میں پوشیدہ ہے۔

ہم،تم کو خبر ہونے تک


عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم،تم کو خبر ہونے تک