دسمبر کوپاکستانی مشرقی حصے کی ساقط ہونے پر نواحہ کناں تھےکہ اچانک سولہ دسمبر1971کو بلانے کیلئے 16دسمبر2014کو پھولوں کو بہت بے دردی سے کاٹ کر ایک اور16دسمبر کو دنیا کے تاریخ میں سیاہ دن کے نام سے نقش کیاگیا۔سننے والے سنتے ہی بے حال ہوگئے دیکھنے والے مزید دیکھنا برداشت نہ کرسکے۔سننے اور ٹیلی ویژن پر دیکھنے والوں کا یقیناََ بُرا حال ہوگا لیکن جو اپنے ہاتھوں سے زخموں سے تر بچوں کو ہسپتال پہنچائے،معصوم بچوں کی ننے لاشوں کے سراور پاؤں باندھ رہا ہو اس کا کیا حال ہوگا یقناََ بیان کرنے سے قاصر ہو کیونکہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی وہ مناظر سامنے ہوجاتے ہے تو دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے آنکھیں اشک بار ہوتی ہے کیونکہ مجھے آج بھی ایک والد یاد ہے جس کا بھی کیا حال ہوگاجو اپنے پھول کی تلاش میں تھی سکول میں نہ ملنے کی وجہ سے اس کا آخری سہارا سی ایم ایچ میں پڑی لاشوں پر تھی لیکن اس یقین تھی کہ اس کی بچہ زندہ ہی ہوگا کیونکہ بقول ان کے کہ میں صاف ستھری کپڑے پہنے ہوئے اپنے بچے کے انتظار میں ہوں۔ ان کی ساتھ ساتھ ایک ایک بچے کی لاش دیکھا کر پوچھتے تھے وہ کہتی یہ نہیں ان کی دل پر کیا گزررہی ہوگی 20تک بچوں کے لاشیں دکھا کر اُن کو اپنا پیارا بیٹا نہیں ملا آخر اس کو دوسرے کونے پڑی لاشوں کی طرف لے گئے یہاں بھی بچوں کی بہت لاشیں ہیں میں نے جب پہلے بچے کے سر سے کفن ہٹا دیا تو پوراََ چیخ کر بولی یہ یہ لیکن یہ تو میرا بچہ نہیں اس نے تو آج صاف ستھری یونیفارم پہنی تھی یہ میرا بیٹا نہیں ہوسکتا میرا بیٹا زندہ ہوگا لیکن اس کی مقدر میں ہمیشہ کیلئے یہی انتظار لکھی گئی تھی اس کی اہ وپکار ایسی کہ ہر دل کو لرزا رہی ہے ،کہ اچانک دوسرے کونے میں کسی خاتوں کی پکار سن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کہیں یہ تو قیامت کے مناظر نہیں۔
سانحہ پشاور کی دوسرے دن بھی پشاور سوگوار دکانیں بند ،ہرطرف خوف کی فضاء،خفت کی اثار ہر چہرے پر نمایاں شائد کوئی ہو جوجگر دریدہ نہ ہو میں لیڈی ریڈنگ کے بلکل قریب رہائش پذیر ہو نے کی وجہ سے سب سے پہلے زخمیوں کی عیادت کیلئے گیاایمر جنسی سے زخمیوں کو ہسپتال کے مختلف بلاک میں شفٹ کیا گیا تھا میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ پہلے آرتھوپیڈیک بلاک گیا تو ایسا لگا کہ کہیں میں پھولوں کے دکان میں ہو جہاں ہر طرف گلدستے پڑے ہو کچھ سٹوڈنٹس اور اساتذہ کی عیادت کی اور کارڈیالوجی بلاک گئے جہاں آئی سی یو میں دو سٹوڈنٹس اور ایک استاد زیر علاج تھا ،وارڈ میں داخل ہونے سے پہلے زخمی ٹیچر کے بھائی نے بتایا کہ ملاقات میں آپ سے پوچھے گا کہ حولہ کیسی ہے آپ مہربانی کرکے بتا دیں کہ وہ ٹھیک ہے اور سی ایم ایچ میں زیر علاج ہے کیونکہ ڈاکٹرز نے منع کیا ہے کہ اس وقت اگر بتادیا تو ان کی بھی جان جاسکتی ہے، (حولہ زخمی استاد کی بیٹی تھی جسے وحشیوں نے دردندگی کی حدود سے پھلانگ کر ان پر گولیوں کی بوچار کی تھی)ہم وارڈ میں داخل ہوئے استاد کی حالت تھوڑی بہتر تھی ان کے قریب بیڈ پر ان کی دو شاگرد طالبات ان کے سامنے بیٹی ہوئی تھی جس کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں مشکل سے بتارہے تھے ، ہمیں ہاتھ سے اشارہ کرکے قریب بیٹھنے کا کہا ان پر گزری قیامت صغریٰ کے کچھ مناظرکچھ اسطرح سنا رہا تھا کہ’’ میں کلاس روم میں تھا کے دہشت گرد داخل ہوئے بچوں پر بے دردی سے گولیاں چلائی میں نے ان کے ساتھ ریزلنگ کی منع کرنے کی کوشش میں تھا کہ ایک نے دوسرے کو اشارہ دیا پہلے انہیں خاموش کردو مجھے خاموش کرنے کیلئے مجھ پرگولی چلائی جو میرے سینے پر لگی۔ لیکن رب العزت کو میرا خاموش ہونا ابھی منظور نہیں تھا گولی لگنے سے گر گیا خون میں لت پت ہر طرف خون ہی خون لیکن شائد یہ ظلم ظالموں نے کافی نہیں سمجھا اور پیٹرول چڑھ کر کلاس روم کو آگ لگایا میں رینگتے ہوئے مشکل سے کلاس سے نکل گیا آتنے میں کچھ فوجی جوان آئے اور آتے ہی ایک افسر نے آڈر دیا ہیٹ آیٹ۔۔۔ میں نے اونچی آواز سے بولنے کی کوشش کی لیکن مسلسل خون بہنے کی وجہ سے میری چیخ وپکار انہیں مشکل سے سنائی دی میں نے کہا نو نو نو۔۔۔۔ آئی ایم ٹیچر اور اور ساتھ ہی جیب سے سروس کارڈ نکالا جس پر فوجی جوان نے دوسرے جوان کو اشارہ کیا مجھے باہر نکال کر ایمبولینس میں لایا گیا ۔ میں نے آئی سی یو سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن مجھے زخمی استاد مجھے تفصیل بتانے کیلئے مجھے مزید روکنے کا کہا ہم باہر نکلے ایک ساتھی نے نرس کو بتایا کہ انہیں آرام کرنے دو کیونکہ یہ سناتے ہوئے ان کی حالات مزید ابتر ہورہی تھی‘‘۔
جب ذہن 16دسمبرکو لمس کرتا ہے تو سی ایم ایچ میں عجیب ساں سوگوار فضاء ایمبولینس کی غمزدہ آوازیں بچوں کے والدین کی آہوں وپُکار سی ایم ایچ کی ایمر جنسی بلاک کی دوسری منزل میں قطار میں پڑی لاشیں میں ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ایک چمن میں موجود ہو گلاب کا پودا میرے سامنے ہیں اور اس سے بہت بے دردی کیساتھ پھول کاٹے جاتے ہیں کہ پھول کا پودا پھول کاٹنے سے لرز جاتا ہے ۔
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے سر جو اُٹھتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہے کیا ظلم کی اوقات ہے کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجان تلک
میں ایک ایک بچے کی لاش کے قریب سے گزر کر دیکھ رہا ہوں ننے پھولوں کو اتنے بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ہے لاشوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ بہت قریب سے گولی مار دی گئی ہے تقریباََ پچاس کے قریب بچوں کی لاشیں دیکھ کر آگے بڑا تو معلوم ہوا کہ یہ علم سکھانے والی ماں ہے جس کو کئے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کے قریب بیٹھی انکی بہن چیخ کر اپنی بہن کو پکار رہی ہے لیکن علم سکھانی والی عظیم ماں آج جنت کے بالاخانے کی جلدی میں اپنی بہن کی آہ سننے سے قاصر ہے ۔
آج ایسا منظر ہے کہ ایک شہید بچہ دوسرے سے کچھ یوں گلہ کرتا ہوگا کہ
سبھی آئے میرے جنازے کے پیچھے اک تو ہی نہ آیا میرے جنازے کے پیچھے
تو کیسے آتا میرے جنازے کے پیچھے میرا جنازہ تھا تیرے جنازے کے پیچھے
کسی نے بہت غلط کہا ہے کی ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے پشاور میں موت کی رقص دیکھ رہا ہو تو میرے خیال میں ظلم کی کوئی انتہا نہیں آج ظالم نے ظلم کی حدود کراس کئے ہے مجھے تو ایک استانی کی لاش انکے گھر پہچانے کی خدمت کا موقعہ ملا وہا ں قیامت صغریٰ دیکھ کر سوچتا ہو کہ پشاور کے 140گھرانوں میں اسی طرح قیامت صغریٰ ہو گا جو میں نے دیکھا ۔ میں نے ایک ماں کی میت پر انکی بچوں کی چیخ وپکار دیکھی پتہ نہیں کہ آج 140بچوں کی مائیں کس حال میں ہوں گے ۔
کبھی دل چاہ رہا ہے کہ کسی سے تعذیت کرو ۔لیکن
تعذیت لفظ کتنا چھوٹا ہے آج احساس ہورہا ہے مجھے
میں نے قیامت بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن آج میرے پاس الفاظ نہیں کے قیامت صغریٰ کے وہ مناظر نقش کرسکوں ۔ لیکن سفاکیت اور کمینہ پن کی انتہا کرنے والوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ۔
لاکھ بیٹھے ہوئے چھپ چھپ کے کمین گاہوں میں خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشین لاکھ اڑاتی رہیں ظلمات کا نقاب لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
سانحہ پشاور کی دوسرے دن بھی پشاور سوگوار دکانیں بند ،ہرطرف خوف کی فضاء،خفت کی اثار ہر چہرے پر نمایاں شائد کوئی ہو جوجگر دریدہ نہ ہو میں لیڈی ریڈنگ کے بلکل قریب رہائش پذیر ہو نے کی وجہ سے سب سے پہلے زخمیوں کی عیادت کیلئے گیاایمر جنسی سے زخمیوں کو ہسپتال کے مختلف بلاک میں شفٹ کیا گیا تھا میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ پہلے آرتھوپیڈیک بلاک گیا تو ایسا لگا کہ کہیں میں پھولوں کے دکان میں ہو جہاں ہر طرف گلدستے پڑے ہو کچھ سٹوڈنٹس اور اساتذہ کی عیادت کی اور کارڈیالوجی بلاک گئے جہاں آئی سی یو میں دو سٹوڈنٹس اور ایک استاد زیر علاج تھا ،وارڈ میں داخل ہونے سے پہلے زخمی ٹیچر کے بھائی نے بتایا کہ ملاقات میں آپ سے پوچھے گا کہ حولہ کیسی ہے آپ مہربانی کرکے بتا دیں کہ وہ ٹھیک ہے اور سی ایم ایچ میں زیر علاج ہے کیونکہ ڈاکٹرز نے منع کیا ہے کہ اس وقت اگر بتادیا تو ان کی بھی جان جاسکتی ہے، (حولہ زخمی استاد کی بیٹی تھی جسے وحشیوں نے دردندگی کی حدود سے پھلانگ کر ان پر گولیوں کی بوچار کی تھی)ہم وارڈ میں داخل ہوئے استاد کی حالت تھوڑی بہتر تھی ان کے قریب بیڈ پر ان کی دو شاگرد طالبات ان کے سامنے بیٹی ہوئی تھی جس کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں مشکل سے بتارہے تھے ، ہمیں ہاتھ سے اشارہ کرکے قریب بیٹھنے کا کہا ان پر گزری قیامت صغریٰ کے کچھ مناظرکچھ اسطرح سنا رہا تھا کہ’’ میں کلاس روم میں تھا کے دہشت گرد داخل ہوئے بچوں پر بے دردی سے گولیاں چلائی میں نے ان کے ساتھ ریزلنگ کی منع کرنے کی کوشش میں تھا کہ ایک نے دوسرے کو اشارہ دیا پہلے انہیں خاموش کردو مجھے خاموش کرنے کیلئے مجھ پرگولی چلائی جو میرے سینے پر لگی۔ لیکن رب العزت کو میرا خاموش ہونا ابھی منظور نہیں تھا گولی لگنے سے گر گیا خون میں لت پت ہر طرف خون ہی خون لیکن شائد یہ ظلم ظالموں نے کافی نہیں سمجھا اور پیٹرول چڑھ کر کلاس روم کو آگ لگایا میں رینگتے ہوئے مشکل سے کلاس سے نکل گیا آتنے میں کچھ فوجی جوان آئے اور آتے ہی ایک افسر نے آڈر دیا ہیٹ آیٹ۔۔۔ میں نے اونچی آواز سے بولنے کی کوشش کی لیکن مسلسل خون بہنے کی وجہ سے میری چیخ وپکار انہیں مشکل سے سنائی دی میں نے کہا نو نو نو۔۔۔۔ آئی ایم ٹیچر اور اور ساتھ ہی جیب سے سروس کارڈ نکالا جس پر فوجی جوان نے دوسرے جوان کو اشارہ کیا مجھے باہر نکال کر ایمبولینس میں لایا گیا ۔ میں نے آئی سی یو سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن مجھے زخمی استاد مجھے تفصیل بتانے کیلئے مجھے مزید روکنے کا کہا ہم باہر نکلے ایک ساتھی نے نرس کو بتایا کہ انہیں آرام کرنے دو کیونکہ یہ سناتے ہوئے ان کی حالات مزید ابتر ہورہی تھی‘‘۔
جب ذہن 16دسمبرکو لمس کرتا ہے تو سی ایم ایچ میں عجیب ساں سوگوار فضاء ایمبولینس کی غمزدہ آوازیں بچوں کے والدین کی آہوں وپُکار سی ایم ایچ کی ایمر جنسی بلاک کی دوسری منزل میں قطار میں پڑی لاشیں میں ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ایک چمن میں موجود ہو گلاب کا پودا میرے سامنے ہیں اور اس سے بہت بے دردی کیساتھ پھول کاٹے جاتے ہیں کہ پھول کا پودا پھول کاٹنے سے لرز جاتا ہے ۔
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے سر جو اُٹھتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہے کیا ظلم کی اوقات ہے کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجان تلک
میں ایک ایک بچے کی لاش کے قریب سے گزر کر دیکھ رہا ہوں ننے پھولوں کو اتنے بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ہے لاشوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ بہت قریب سے گولی مار دی گئی ہے تقریباََ پچاس کے قریب بچوں کی لاشیں دیکھ کر آگے بڑا تو معلوم ہوا کہ یہ علم سکھانے والی ماں ہے جس کو کئے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کے قریب بیٹھی انکی بہن چیخ کر اپنی بہن کو پکار رہی ہے لیکن علم سکھانی والی عظیم ماں آج جنت کے بالاخانے کی جلدی میں اپنی بہن کی آہ سننے سے قاصر ہے ۔
آج ایسا منظر ہے کہ ایک شہید بچہ دوسرے سے کچھ یوں گلہ کرتا ہوگا کہ
سبھی آئے میرے جنازے کے پیچھے اک تو ہی نہ آیا میرے جنازے کے پیچھے
تو کیسے آتا میرے جنازے کے پیچھے میرا جنازہ تھا تیرے جنازے کے پیچھے
کسی نے بہت غلط کہا ہے کی ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے پشاور میں موت کی رقص دیکھ رہا ہو تو میرے خیال میں ظلم کی کوئی انتہا نہیں آج ظالم نے ظلم کی حدود کراس کئے ہے مجھے تو ایک استانی کی لاش انکے گھر پہچانے کی خدمت کا موقعہ ملا وہا ں قیامت صغریٰ دیکھ کر سوچتا ہو کہ پشاور کے 140گھرانوں میں اسی طرح قیامت صغریٰ ہو گا جو میں نے دیکھا ۔ میں نے ایک ماں کی میت پر انکی بچوں کی چیخ وپکار دیکھی پتہ نہیں کہ آج 140بچوں کی مائیں کس حال میں ہوں گے ۔
کبھی دل چاہ رہا ہے کہ کسی سے تعذیت کرو ۔لیکن
تعذیت لفظ کتنا چھوٹا ہے آج احساس ہورہا ہے مجھے
میں نے قیامت بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن آج میرے پاس الفاظ نہیں کے قیامت صغریٰ کے وہ مناظر نقش کرسکوں ۔ لیکن سفاکیت اور کمینہ پن کی انتہا کرنے والوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ۔
لاکھ بیٹھے ہوئے چھپ چھپ کے کمین گاہوں میں خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشین لاکھ اڑاتی رہیں ظلمات کا نقاب لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
No comments:
Post a Comment