Saturday, 3 January 2015

انقلابی پولیس


اگرچہ خیبرپختونخواہ میں پولیس کی کارکردگی کسی حد تک بہتر ہوئی ہے مگر پھر بھی یہاں باقی ماندہ صوبوں کی طرح رشوت کا بازار گرم اور حق تلفی عام ہے، ویسے تو اس کی عادت ہے مگر عمران خان کی موجودگی میں یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے۔ فوٹو: فائل
آج سے تقریباً 13 برس قبل ایک برطانوی خاتون صحافی یووین ریڈلی نائن ایلیون حملے کے بعد پاکستان اور خاص کر افغانستان کی تازہ صورتحال کو انٹر نیشنل میڈیا تک پہنچانے کیلئے اسلام آباد آئی ہوئی تھی، خبر کی حصول کیلئے انہیں افغان طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہونا بھی پڑا تھا جس کے بعد ایک کتاب لکھی تھی ’’طالبان کی قید میں‘‘ جس میں اسلام آباد اور افغانستان میں گزرے ہوئے لمحوں کا ذکر کیا ہے ۔
اس  کتاب میں ایک قابل ذکر واقعہ پاکستانی پولیس کی بارے میں بھی ہے۔ ریڈلی کہتی ہے کہ مین روڈ پشاور سے جاتے ہوئے پولیس نے ہمیں کئی جگہ روکا اور نیم دلانہ انداز میں کار کی تلاشی بھی لی۔ میرے بہروپ نے انہیں مطمئن کیا مگر انہیں دراصل کسی اور چیز کی ضرورت تھی، انہیں روپوں کی ضرورت تھی۔ پولیس کی ظاہر ی تنخواہ بہت کم ہے اور اسی کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنے طور پر غیر سرکاری روڈ ٹول وصول کرتے رہتے ہیں۔ میرے گائد مسکین نے ایک پولیس مین کو کچھ روپے دیے لیکن اس نے مسکین سے جھگڑا شروع کردیا کہ یہ بہت کم ہیں جس کے بعد سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا مسکین نے غصے سے جھپٹا مارا اور روپے واپس لے کر کار تیزی سے دوڑا دی اور بھاگ نکلا، سب لوگ بے تحاشہ ہنسنے لگے، میرے ساتھ ٹیکسی ڈرایور پاشا نے کہا  کہ پولیس والے بہت لالچی ہوگئے ہیں لالچ کی وجہ سے پہلی رقم سے بھی محروم ہوگیا۔
بات تو یہ بہرحال تیرا سال پرانی ہے مگر بدقسمتی سے حال اب بھی یہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد پنجاب پولیس کی شہرت اس وقت اُبھری جب گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہوئے سانحہ کا مرکزی کردار بن گیا۔  جس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادی اور تحریک انصاف کی چیئرمین عمران خان کی جانب سے پورے پنجاب پولیس کو گلوبٹوں کا خطاب دیا گیا۔  اس پر لاہور میں بٹ برادری نے بھر پور احتجاج بھی کیا لیکن بٹ برادری کی احتجاج پر بھی سگے کزنز کا بٹ برادری پر تنقیدی برسات اسی طرح جاری رہی۔ بٹ کا نام اتنا متعارف ہوا کے گوگل والوں نے گلو بٹ کا ایک گیم بھی متعارف کرایا ۔
اسلام آباد دھرنے میں ایک طرف تو گلوبٹوں کو مخاطب کیا جاتا تھا تو اس کے بعد خان کی پولیس( خیبر پختونخوا پولیس) کے کارناموں کو سرہایا جاتا تھا، ٹی وی سکرین پر لائیو خطباتِ عمران خان میں روزانہ گلوبٹوں کوبُرا بلا کہنے سمیت خیبر پختونخوا پولیس کو لازمی خراج تحسین پیش کیا گیاہے کہ دیکھئے وہا ں پولیس کا نظام ۔
تو بھائی  پھر سوال یہ ہے کہ بتائیے کیا نظام ہے؟  عمران کی پولیس یعنی خیبر پختونخوا پولیس جس نظام کے سبب پولیس کی کارکردگی کو بہتر پیش کیا جارہا ہے، شاید کارکردگی کاغذی طور پر بہتر ہو لیکن عملاً کارکردگی تو خیبر پختونخوا میں بسنے والوں نے بغور دیکھ ہی لی۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سوات کے ایک مصروف سی این جی  اسٹیشن  پرلمبی قطاریں لگیں تھی کہ اس وقت عوام کی خادم پولیس کی ایک گاڑی سی این جی اسٹیشن میں داخل ہوئی۔ گمان ہمارا یہی تھا کہ خدمت کے جذبے سے آئے ہوئے لوگوں کو پُر امن رہنے اور سی این جی باری باری بھروانے کی تلقین کےلیے ہمارے محافظ یہاں آئے ہیں مگر ہمارا گمان اُس وقت غلط ثابت ہوا جب  پولیس نے لائن سے آگے جاکر بدمعاشی کے ذریعے سی این جی بھروانی چاہی۔ پھر جب وہاں کھڑے  ملازمین کی جانب سے بتایا گیا کہ پیچھے طویل لائن ہے تو تھپر وں اور لاتوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا ۔ تلخی اتنی بڑھ گئی کی سی این جی پمپ کی بجلی کی تاروں کو کاٹ کر بجلی منقطع کی گئی جس کے باعث کئی گھنٹوں سے قطاروں میں کھڑی گاڑیوں کو مایوس ہوکر دوسرے سٹیشن کی جانب روانہ ہونا پڑا۔ بہت سی گاڑیوں میں سی این جی ختم ہوچکی تھی تو وہ اُن بیچاروں کو دھکے کا بھی سہارا لینا پڑا۔
ایک اور مثال ہم صرف مثال کی طور پر پیش کرتے ہیں کہ پشاور پاکستان کا ہی  نہیں بلکہ پوری  دنیا کا حساس ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ ہشتنگری بازار کو پشاور میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے  کہ رات 8 بجے کے بعد اکثر آپکو ہشتنگری سٹاپ پر روزانہ دو تین پولیس اہلکار نظر آئیں گے جو گاڑیوں کو روک کر شاید تلاشی بھی لیتے ہوں گے۔  آج سے دو دن پہلے رات کاکھانا کھانے کیلئے ہشتنگری کی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں موجود تھے ۔ کاونٹرپر پولیس اہلکار بھی کھڑے کھانا کھانے کے بعد بل جمع کرارہے تھے کہ یہاں پر بھی کچھ تلخی نظر آئی ۔ بات مزید بگڑی تو ہم نے بھی مداخلت کی کوشش کی پتہ چلا کہ قانون کے رکھ والے بندوق کے بل بوتے پر رعایت کیلئے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ آخر لوگوں کی مداخلت پر عوام کے محافظوں نے اپنی حیثیت کی رقم کاٹ کر باقی جمع کرادی اور یوں بڑا کارنامہ کرتے ہوئے فاتحانہ انداز میں نکل گئے۔
یہ 2 واقعات میرے سامنے ہوئے لیکن ایسے واقعات اور اس سے بھی بدتر واقعات پو لیس کی روزانہ کے معمول کا حصہ ہوتے ہیں اگر چہ ان واقعات کی عادت ہوچکی ہے مگر عمران خان کی حکومت میں یہ سب کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اسی لیے میں سوچتا ہوں کہ کسی کی حق تلفی کرنے کے بعد اسکی حق کی حفاطت کرنا کیسے ممکن ہے؟ شاید مقولہ سنا ہو ’بلی سے دودھ کی رکھولی کرنا‘ ۔۔۔ جب عام لوگوں کی حق تلفی کی جاتی ہے اور انہیں انصاف نہ دیا جائے تو انجام وہی ہوتا ہے جو آج ہورہا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخواہ پولیس کی کارکردگی پچھلے ادوار سے یقیناً بہتر ہوئی ہے لیکن اس وقت انصاف اسلامی اتحاد (تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی جمہوری اتحاد) خیبر پختونخوا میں بر سر اقتدار ہے اور پولیس کیلئے بہترین نظام پیش کرنے کی دعویدار ہے لیکن یہ عملی طور پر کب نظر آئے گا؟ یہ سوال ہے جو انصاف، اسلام اور اتحاد سے خیبر پختونخوا کی عوام پورا ہونے کیلئے اُمید بنائی بیٹھی ہے۔

No comments:

Post a Comment