Wednesday, 10 September 2014

رشتوں کی کہکشاں

رشتوں' کی 'کہکشاں' سر بازار 'بیچ' کر 'گھر' کو 'بچا' لیا 'در و دیوار' 'بیچ' کر 'شہرت' کی 'بھوک' ہم کو کہاں لے کے آگئی ہم 'محترم' ھوۓ بھی تو 'کردار' 'بیچ' کر وہ شخص 'سورما' ھے مگر 'باپ' بھی تو ھے 'روٹی' 'خرید' لی ھے 'تلوار' 'بیچ' کر جس کے 'قلم' نے 'مدتوں' بوۓ ہیں 'انقلاب' اب 'پیٹ' 'پالتا' ھے وہ 'افکار' 'بیچ' کر 'کانپی' ذرا 'زمین' تو سب 'خاک' ھو گیا ہم نے 'محل' بناۓ تھے 'مینار' 'بیچ' کر

No comments:

Post a Comment