> تو آج پھر یاد آرہا ہے!
> باپ کے شفقت اور محبت کا اندازہ ہم سب کو ہے لیکن مجھے یہ اندازہ ایک سال پہلے ہوا. باپ حقیقی ہو یا روحانی ان دونوں کے شفقتوں میں تهوڑا بہت فرق ہے حقیقی باپ کی شفقت تاحیات ہوتی ہے اور روحانی باپ کی شفقت تا نگاہ ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ اس طرح بهی آئے جو لاکھوں لوگوں کے روحانی باپ بن گئے اور ایسے بن گئے کہ لوگ اپنے حقیقی باپ سے اس روحانی باپ کے ساتھ زیادہ محبت کرنے لگے .
> پچھلا سال آغاز میں ہی ہمارے روحانی باپ قاضی حسین احمد کو ہم سے چهینے میں کامیاب ہوا لیکن اس روحانی باپ سے محبت دل میں اتنی راسخ ہو ئی کے آج بهی وہی ہنستا مسکراتا چہرہ میرے نظروں میں اچهل رہاہے اور مخاطب ہے میرے بیٹوں، میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کو جی نہیں چاہ رہا لیکن انشاءاللہ جنت میں سب سے ملاقات ہوگی .
> قاضی حسین احمد رحمتہ اللہُ علیہ جو آج سے ایک سال قبل اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے. جس کے بارے ہزاروں لوگوں سے سنا انکے بیٹے اصف بهائی اور بیٹی سمیحہ باجی سے ملاقات بهی ہوئی ، کالمز بهی پڑھ کر اندازہ ہوا کے واقعی ہم ایک عظیم شخصیت کو کهوبهیٹے ہیں.اور شائد جس کے لئے شاعر نے کہا تها کہ
> ہزاروں سال نرگس اپنے بے نوری پہ روتی ہے
> بڑے مشکل سے ہوتی ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
> سمیحہ باجی سے گفتگو کے دوران بار بار آغاجان، میرا دل باجی کے کالم آغاجان میرے سائبان دل سے تسلیم کرنے لگا کہ واقعی آغاجان ایک سائباں تهے لیکن اکیلے اصف بهائی اور سمیحہ باجی کے نہیں لاکھوں بیٹوں اور بیٹیوں کے سائباں تهے جس کی محبت اور شفقت بهرے آواز کے آج بهی لاکھوں لوگ گرویدہ ہیں جسے سن کر میں بهی دل کو تسلی دے دیتا ہوں کہ انشاءاللہ جنت ہی میں ملاقات ہوگی.
No comments:
Post a Comment