شتر بے مہار
(اشک قلم)
ہدایت الرحمن حسن
روزنامہ میزان عدل
http://www.meezaneadel.com/idariya/imran%20rajpoot.jpg
بس میں سوار اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھاراستے میں ڈرئیور کے جگہ جگہ سٹاپ کرنے پر انتہائی تنگ ہورہا تھا۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے ایک کھلے میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ میدان میں ایک بچہ ہاتھ کے بنائے ہوئے بلے کو ہاتھوں میں مسلسل گھما رہا ہے۔ میری نظریں بچے پر پڑیں تو سوچتا ہوں کہ یہ بچہ کیا رہا ہے کہ اچانک کنڈکٹر نے آواز لگائی ٹائر پنکچر ہو گیا ہے اور کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے اپنی توجہ اس بچے کی طرف مرکوز کر دی۔ بچہ ایک کنکر اُٹھا کر اوپر پھینکتا ہے پھر بلا گھوما کر کنکر کو ماردیتا ہے۔ یہ سلسلہ شروع رہتا ہے اور میں بھی ایک تماشائی بن کر یہ انوکھا میچ دیکھ رہا ہوں کہ اچانک بچے نے ہاتھ اور بلے کو اٹھا کر ہوا میں لہرا یااور پھر سر بسجدہ ہوگیا اور سجدے سے اٹھ کر آسمان کے طرف دیکھ کر اندازِ شکر اپنایا ۔بچے نے مجھے سوچوں میں گھمادیا کہ پہلے سجدہ اور پھرآسمان کی طرف دیکھ کر اندازِ شکر؟
اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد قریبی گراونڈمیں بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے آج بچوں کا انداز کچھ مختلف تھی لیکن کہانی ملی جلی تھی باؤلر رننگ شروع کرتے ہوئے امپائر کو کراس کرکے بال پھینکتاہے اور بیٹسمین بال مِس کرتا ہے اور بلز گرجاتے ہیں' آوٹ کرنے والا باؤلر مکے مار کر آوٹ ہونے والے کھلاڑی کو گالیا ں دیتے ہوئے زور زور سے چیخ رہا ہے۔
یہ دونوں واقعے میں نے اتفاقاً دیکھے اور شائد آپ نے بھی کچھ اس طرح دیکھا ہوگا دونوں واقعات میں ہمارے لئے ایک خاص بات پوشیدہ ہے جسے اس وقت صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے' دونوں کے انداز کرکٹ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ پیغام بھی مختلف ہیں۔
آخر کار بچے نے سیکھا کیسے کے سنچری بنانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا اور سربسجدہ ہونا اور آوٹ کرنے پر گالیاں دینا لازمی بات ہیں؟ کیا ان بچوں نے گھر میں اپنے بڑوں سے تو ایسا نہیں سیکھا؟ لیکن ہاں گھر میں ایک ایسا استاد ضرور موجود ہے جس سے یہ سبق (لیکچر) ان بچوں نے سیکھا ہوگا۔ یہ استاد کون ہے؟ اسے ہم سب آج کل ٹی وی کے نام سے جانتے ہیں ہمارے بچے اپنے حقیقی استاد سے کم سیکھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ اس رنگین استاد سے زیادہ سیکھتے اور عمل کرتے ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا اور غور کیا ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کیا دیکھا رہے ہیں ؟ آخر ہم ٹی وی اور انٹرنیٹ سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ کیا کبھی سوچا ہے کہ کیبل پر چلنے والے ڈرامے اور پروگرامات ہماری اخلاقی حدود تو کراس نہیں کرتی اگر حد پار کرتی ہیں تو ہم خاموش کیوں ؟
آج کل میڈیا جس تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے اس سے بچوں پر بھی میڈیا کے دئے ہوئے پیغامات اثر پذیر ہورہے ہیں ۔ تمام ٹی وی چینلز انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں ہمیں بے ہودہ محبت کی کہانیاں بناکر مجبور کر رہیں کہ اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو ایسا ہی کرنا پڑے گا' یہ بے ہودہ محبت جسے سیکھ کر کئے گھر اجڑے گئے اور خدا نہ کرے اگر یہی صورتحال رہی تو مزید کئی گھر اُ جڑیں گے ۔اس طرح اگر ہم نیوز چینلز کو دیکھ لیں تو ٹاک شوز پر سیاست دانوں کی گرما گرم بحث سے ہٹ کر اپنی نیوز میں ملک کے کسی اہم مسلئے کا ذکر کریں یا نہ کریں لیکن ہالی ووڈ و بالی ووڈ یا کسی کالج یونیورسٹی میں ہونے والے فیشن شوکا ذکرتو ضرور کرنا ہوگا ۔ ان سارے معاملات سے ہٹ کر اشتہارت اگر دیکھ لئے جائیں تو فحاشی کی بھرمار دیکھنے کو ملے گی ۔عریاں عورتوں کے ڈارمے اور اشتہارات دکھاکر ہمیں کیا سبق دینا چاہتے ہیں؟ کیا اشتہارمیں عریاں عورت کے نہ آنے سے مصنوعات کو خرید نے سے کوئی بائیکاٹ کرلیگا؟
آج جس تیزی کے ساتھ دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے میڈیا اور انٹرنیٹ عروج پر ہیں جتنی تیزی سے دنیا کی ترقی سامنے آرہی ہے اسی طرح فحاشی وعریانیت عروج پر ہیں۔ فحش فلمیں اور اشتہارات اس قدر زیادہ ہیں کہ جس کے وجہ سے ہم نام نہاد روشن خیالی کے ایسے تاریک دور سے گزررہے جس میں عمومی طور پر انسان اپنے دینی ،روحانی ،اور لطیف جذبات کو نہاں خانہ دل کے کسی ویران گوشے میں ڈال کر ہوائے نفس کے گھوڑے پر سوار مادیت پرستی کی طرف رواں دواں ہے اکثریت نے لذت اور بے ہودہ عشق بھری زندگی کو ہی اپنا اصل مقصدِ زندگی سمجھ لیا ہے اور میڈیا کے سیکھائے ہوئے مجازی عشق کو اپنی زندگی کی اصل منزل سمجھ لیا ہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ خواہشِ نفس پوری ہونی چاہئے خواہ جیسے بھی ہو ،شرم وحیاء جیسی صفات ختم ہوچکی ہیں، فحاشی وعریانیت کا ایک طوفان ہے جس نے آج وطنِ عزیز کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے جس کے کئی ثبوت ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر بھی کئے جاچکے ہیں اور نشر کئے جارہے ہیں۔
مغرب اور انڈیا کی فلمیں،فحش ویب سائٹس تک رسائی آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انتہائی آسان بنادئیے گئے ہیں جس کے وجہ سے آج مسلمان اور خاص کر نوجوان نسل اپنی حقیقت کو ہی بھول گئی ہے یہ وہ قوم تھی جس کے جوانوں کو کبھی ذکر اللہ کی مستی، سجدوں کی لذت ، اللہ تعالیٰ کے خوف، قیام الیل کے شوق اور علم کے ذوق دن رات مصروف رکھتے تھے،جس کے چہرے عبادت کے نورکی چمک اور معرفت کے نور کی دمک سے رخشندہ وتابندہ ہواکرتے تھے لیکن آج ہماری اپنے کوتاہیوں کے سبب مغربی سوچ اور ثقافت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ اگر اس طرح ٹی وی چینلز پر فرسودہ عشق اور محبت کی ایسی فرضی کہانیا ں دکھائی جاتی رہیں جس کے سبب نوجوان نسل حصول علم کے بجائے فرسودہ عشق اور محبت کے لئے کوشاں ہیں تو پھر اپنے اس مستقبل سے امید رکھنا بے کار ہے۔
فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً ڈش، کیبل، اور انٹرنیٹ کی فحش سائٹس ،فلیکس بورڈ کے ذریعے اشتہار وغیرہ کو کنٹرول کرنا حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ وفاقی ادارہ پیمرا کے ذریعے اس طوفان کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ حکومت جس تیزی کے ساتھ ملک کے ہر گھر تک انٹرنیٹ کے حصول کو ممکن کرنا چاہتی ہے اور 3Gٹیکنالوجی بھی لانچ ہورہی ہے تواس قدر فحاشی کو فروغ دینے والے ویب سائٹس کو بلاک کریں ایسے ٹی وی چینلز پر پابندی لگائی جائے یا مستقل کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے جس کے ذریعے آج کے اس شتر بے مہار میڈیاجوہمارے آنے والے کل کو کاری ضرب لگانے پہ تلے ہوئے ہیں لگام دی جا سکے۔ میری حکومت سے التجا ء ہے کہ خدا کے لئے اس نوجوان نسل کے مستقبل پر زراہ سوچیںکیونکہ یہ بڑھتی ہو ئی فحاشی نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل کی طرح ہے اگر اسے آج قابو نہ کیا گیا تو پھر آنے والے کل کو اس پر قابو پانہ مشکل ہی ناممکن ہو جائے گا ۔
(اشک قلم)
ہدایت الرحمن حسن
روزنامہ میزان عدل
http://www.meezaneadel.com/idariya/imran%20rajpoot.jpg
بس میں سوار اپنے منزل کی طرف رواں دواں تھاراستے میں ڈرئیور کے جگہ جگہ سٹاپ کرنے پر انتہائی تنگ ہورہا تھا۔ مختلف جگہوں سے ہوتے ہوئے ایک کھلے میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ میدان میں ایک بچہ ہاتھ کے بنائے ہوئے بلے کو ہاتھوں میں مسلسل گھما رہا ہے۔ میری نظریں بچے پر پڑیں تو سوچتا ہوں کہ یہ بچہ کیا رہا ہے کہ اچانک کنڈکٹر نے آواز لگائی ٹائر پنکچر ہو گیا ہے اور کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے اپنی توجہ اس بچے کی طرف مرکوز کر دی۔ بچہ ایک کنکر اُٹھا کر اوپر پھینکتا ہے پھر بلا گھوما کر کنکر کو ماردیتا ہے۔ یہ سلسلہ شروع رہتا ہے اور میں بھی ایک تماشائی بن کر یہ انوکھا میچ دیکھ رہا ہوں کہ اچانک بچے نے ہاتھ اور بلے کو اٹھا کر ہوا میں لہرا یااور پھر سر بسجدہ ہوگیا اور سجدے سے اٹھ کر آسمان کے طرف دیکھ کر اندازِ شکر اپنایا ۔بچے نے مجھے سوچوں میں گھمادیا کہ پہلے سجدہ اور پھرآسمان کی طرف دیکھ کر اندازِ شکر؟
اس واقعے کے کچھ ہی دنوں بعد قریبی گراونڈمیں بچے کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے آج بچوں کا انداز کچھ مختلف تھی لیکن کہانی ملی جلی تھی باؤلر رننگ شروع کرتے ہوئے امپائر کو کراس کرکے بال پھینکتاہے اور بیٹسمین بال مِس کرتا ہے اور بلز گرجاتے ہیں' آوٹ کرنے والا باؤلر مکے مار کر آوٹ ہونے والے کھلاڑی کو گالیا ں دیتے ہوئے زور زور سے چیخ رہا ہے۔
یہ دونوں واقعے میں نے اتفاقاً دیکھے اور شائد آپ نے بھی کچھ اس طرح دیکھا ہوگا دونوں واقعات میں ہمارے لئے ایک خاص بات پوشیدہ ہے جسے اس وقت صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے' دونوں کے انداز کرکٹ مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ پیغام بھی مختلف ہیں۔
آخر کار بچے نے سیکھا کیسے کے سنچری بنانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا اور سربسجدہ ہونا اور آوٹ کرنے پر گالیاں دینا لازمی بات ہیں؟ کیا ان بچوں نے گھر میں اپنے بڑوں سے تو ایسا نہیں سیکھا؟ لیکن ہاں گھر میں ایک ایسا استاد ضرور موجود ہے جس سے یہ سبق (لیکچر) ان بچوں نے سیکھا ہوگا۔ یہ استاد کون ہے؟ اسے ہم سب آج کل ٹی وی کے نام سے جانتے ہیں ہمارے بچے اپنے حقیقی استاد سے کم سیکھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں جبکہ اس رنگین استاد سے زیادہ سیکھتے اور عمل کرتے ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی سوچا اور غور کیا ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز کیا دیکھا رہے ہیں ؟ آخر ہم ٹی وی اور انٹرنیٹ سے کیا سیکھ رہے ہیں؟ کیا کبھی سوچا ہے کہ کیبل پر چلنے والے ڈرامے اور پروگرامات ہماری اخلاقی حدود تو کراس نہیں کرتی اگر حد پار کرتی ہیں تو ہم خاموش کیوں ؟
آج کل میڈیا جس تیزی سے پیش قدمی کررہا ہے اس سے بچوں پر بھی میڈیا کے دئے ہوئے پیغامات اثر پذیر ہورہے ہیں ۔ تمام ٹی وی چینلز انٹرٹینمنٹ کی آڑ میں ہمیں بے ہودہ محبت کی کہانیاں بناکر مجبور کر رہیں کہ اگر زندگی میں آگے بڑھنا ہے تو ایسا ہی کرنا پڑے گا' یہ بے ہودہ محبت جسے سیکھ کر کئے گھر اجڑے گئے اور خدا نہ کرے اگر یہی صورتحال رہی تو مزید کئی گھر اُ جڑیں گے ۔اس طرح اگر ہم نیوز چینلز کو دیکھ لیں تو ٹاک شوز پر سیاست دانوں کی گرما گرم بحث سے ہٹ کر اپنی نیوز میں ملک کے کسی اہم مسلئے کا ذکر کریں یا نہ کریں لیکن ہالی ووڈ و بالی ووڈ یا کسی کالج یونیورسٹی میں ہونے والے فیشن شوکا ذکرتو ضرور کرنا ہوگا ۔ ان سارے معاملات سے ہٹ کر اشتہارت اگر دیکھ لئے جائیں تو فحاشی کی بھرمار دیکھنے کو ملے گی ۔عریاں عورتوں کے ڈارمے اور اشتہارات دکھاکر ہمیں کیا سبق دینا چاہتے ہیں؟ کیا اشتہارمیں عریاں عورت کے نہ آنے سے مصنوعات کو خرید نے سے کوئی بائیکاٹ کرلیگا؟
آج جس تیزی کے ساتھ دنیا ترقی کی راہ پر گامزن ہے میڈیا اور انٹرنیٹ عروج پر ہیں جتنی تیزی سے دنیا کی ترقی سامنے آرہی ہے اسی طرح فحاشی وعریانیت عروج پر ہیں۔ فحش فلمیں اور اشتہارات اس قدر زیادہ ہیں کہ جس کے وجہ سے ہم نام نہاد روشن خیالی کے ایسے تاریک دور سے گزررہے جس میں عمومی طور پر انسان اپنے دینی ،روحانی ،اور لطیف جذبات کو نہاں خانہ دل کے کسی ویران گوشے میں ڈال کر ہوائے نفس کے گھوڑے پر سوار مادیت پرستی کی طرف رواں دواں ہے اکثریت نے لذت اور بے ہودہ عشق بھری زندگی کو ہی اپنا اصل مقصدِ زندگی سمجھ لیا ہے اور میڈیا کے سیکھائے ہوئے مجازی عشق کو اپنی زندگی کی اصل منزل سمجھ لیا ہے ۔ انسان سمجھتا ہے کہ خواہشِ نفس پوری ہونی چاہئے خواہ جیسے بھی ہو ،شرم وحیاء جیسی صفات ختم ہوچکی ہیں، فحاشی وعریانیت کا ایک طوفان ہے جس نے آج وطنِ عزیز کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے جس کے کئی ثبوت ہمارے ٹی وی چینلز پر نشر بھی کئے جاچکے ہیں اور نشر کئے جارہے ہیں۔
مغرب اور انڈیا کی فلمیں،فحش ویب سائٹس تک رسائی آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انتہائی آسان بنادئیے گئے ہیں جس کے وجہ سے آج مسلمان اور خاص کر نوجوان نسل اپنی حقیقت کو ہی بھول گئی ہے یہ وہ قوم تھی جس کے جوانوں کو کبھی ذکر اللہ کی مستی، سجدوں کی لذت ، اللہ تعالیٰ کے خوف، قیام الیل کے شوق اور علم کے ذوق دن رات مصروف رکھتے تھے،جس کے چہرے عبادت کے نورکی چمک اور معرفت کے نور کی دمک سے رخشندہ وتابندہ ہواکرتے تھے لیکن آج ہماری اپنے کوتاہیوں کے سبب مغربی سوچ اور ثقافت میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ اگر اس طرح ٹی وی چینلز پر فرسودہ عشق اور محبت کی ایسی فرضی کہانیا ں دکھائی جاتی رہیں جس کے سبب نوجوان نسل حصول علم کے بجائے فرسودہ عشق اور محبت کے لئے کوشاں ہیں تو پھر اپنے اس مستقبل سے امید رکھنا بے کار ہے۔
فحاشی کے تمام ذرائع مثلاً ڈش، کیبل، اور انٹرنیٹ کی فحش سائٹس ،فلیکس بورڈ کے ذریعے اشتہار وغیرہ کو کنٹرول کرنا حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔ وفاقی ادارہ پیمرا کے ذریعے اس طوفان کو قابو کیا جاسکتا ہے۔ حکومت جس تیزی کے ساتھ ملک کے ہر گھر تک انٹرنیٹ کے حصول کو ممکن کرنا چاہتی ہے اور 3Gٹیکنالوجی بھی لانچ ہورہی ہے تواس قدر فحاشی کو فروغ دینے والے ویب سائٹس کو بلاک کریں ایسے ٹی وی چینلز پر پابندی لگائی جائے یا مستقل کوئی ایسی پالیسی بنائی جائے جس کے ذریعے آج کے اس شتر بے مہار میڈیاجوہمارے آنے والے کل کو کاری ضرب لگانے پہ تلے ہوئے ہیں لگام دی جا سکے۔ میری حکومت سے التجا ء ہے کہ خدا کے لئے اس نوجوان نسل کے مستقبل پر زراہ سوچیںکیونکہ یہ بڑھتی ہو ئی فحاشی نوجوان نسل کے لئے زہر قاتل کی طرح ہے اگر اسے آج قابو نہ کیا گیا تو پھر آنے والے کل کو اس پر قابو پانہ مشکل ہی ناممکن ہو جائے گا ۔
No comments:
Post a Comment