کبھی جو ہم نہیں ہوں گے ،
کہو کس کو بتاؤ گے ،
وہ اپنی الجھنیں ساری ،
وہ بیچینی میں ڈوبے پل ،
وہ آنکھوں میں چھپے آنسو ،
کسی پھر تم دکھاؤ گے ،
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے ،
بہت بیچین ہو گے تم ،
بہت تنہا رہ جاؤ گے ،
ابھی بھی تم نہیں سمجھے ،
ہماری ان کہی باتیں ،
مگر جب یاد آئیں گے ،
بہت تم کو رلائیں گے ،
بہت چاہو گے پھر بھی تم ،
ہمیں نا ڈھونڈ پاؤ گے ،
کبھی جو ہم نہیں ہوں گے
Wednesday, 10 September 2014
دلیل محبت ؟
دلیل محبت ؟
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی!
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے .....تو پھر آخر ہمیں
اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب! ..... ایسی محبت ہے
(فقط دعویٰ سجھاتی ہے)
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے!
ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں
صدا آئی .........
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو!
شاعر: احسن عزیز
کتاب: تمہارا مجھ سے وعدہ تھا!
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو! ہٹ جاﺅ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دعا! ہاں عرض کر عرشِ الٰہی تھام کے
اے خدا، رخ پھیر دے اب گردش ایام کے
رحم کر اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے در پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بت کہ مسلم کا خدا کوئی نہی
ارے او مسلم بتا
ارے او مسلم بتا کیوں تو نے ماضی اپنا بھلا دیا ہے ؟؟؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذان روح ہلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی
:
میں اپنے نبی کے کُوچے میں
میں اپنے نبی کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
اِك خواب سے گويا اٹھا تھا
كچھ ايسى سكينت طارى تھی
حيرت سے ان آنكھوں كو اپنی
ملتا ہی گیا ملتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
جب مسجد نبوى كو ديكھا
ميں روضہ جنت ميں پہنچا
جِس جا وہ ﷺ مبارك چہرے كو
اشكوں سے اپنے دھوتا تھا
جب دنيا والے سوتے تھے
وہ ﷺ ان کے ليے پھر روتا تھا
اك ميں تھا كہ سب كچھ بھول رہا ،
اك وہ ﷺ تھا كہ امت كى خاطر
كتنے صدمے اور كتنے الم،
جھلتا ہی گیا جھلتا ہی گيا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
طائف كى وادى ميں اترا،
طالب كى گھاٹی سے گزرا
اك شام نكل پھر طیبہ سے
ميدان احد ميں جا بيٹھا
واں پیارے حمزہ كا لاشہ
جب چشمِ تصور سے ديكھا
عبداللہ کے شہ زادے ﷺ كو
اس دشت ميں پھر بِسمل ديكھا
يہ سارے منظر ديكھ کے پھر
ميں رہ نہ سکا كچھ کہہ نہ سكا
بس دکھ اور درد كے قالب ميں
ڈھلتا ہی گیا ڈھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
ميں كيا منہ لے كر جاؤں گا؟
كوثر كى طرف جب آؤں گا
تلوار ميں ميرى دھار نہیں،
تعلیمِ دین سے پیار نہیں
باتوں ميں ميرى سوز كہاں؟
آہیں ميرى دل دوز كہاں؟
كتنے ہی پیماں توڑ چکا،
میں رب كى ياديں چھوڑ چکا!
اِك ايك مرا پھر جرم مجھے
کَھلتا ہی گیا کَھلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
پھر لوٹ کے جب میں گھر آیا،
اك شمع ساتھ ہی لے آیا
يہ حب سنت كى شمع
جس دن سے فروزاں كى ميں نے
اس دن سے ميں پروانہ بن كر
جلتا ہی گیا جلتا ہی گيا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
میں اپنے نبی ﷺ کے کُوچے میں
چلتا ہی گیا چلتا ہی گیا
جو تبسم رخ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا
جو جمال روئے حیات ﷺ تھا، جو دلیل راہ نجات ﷺ تھا
اسی راہبر ﷺکے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایت کم نظر! تیرے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
رشتوں کی کہکشاں
رشتوں' کی 'کہکشاں' سر بازار 'بیچ' کر
'گھر' کو 'بچا' لیا 'در و دیوار' 'بیچ' کر
'شہرت' کی 'بھوک' ہم کو کہاں لے کے آگئی
ہم 'محترم' ھوۓ بھی تو 'کردار' 'بیچ' کر
وہ شخص 'سورما' ھے مگر 'باپ' بھی تو ھے
'روٹی' 'خرید' لی ھے 'تلوار' 'بیچ' کر
جس کے 'قلم' نے 'مدتوں' بوۓ ہیں 'انقلاب'
اب 'پیٹ' 'پالتا' ھے وہ 'افکار' 'بیچ' کر
'کانپی' ذرا 'زمین' تو سب 'خاک' ھو گیا
ہم نے 'محل' بناۓ تھے 'مینار'
'بیچ' کر
پاکستان پاکستان
چاند نگر کی باتیں کر ے من کو کیوں بہلائیں ہم؟
ایسے نگر سے کیا ہے لینا جس تک پہنچ نہ پائیں ہم
چاند نگر بھی جائیں گے ا سکو بھی سجائیں گے
پہلے اپنے گھر کو دیکھیں پہلے اسے سجائیں ہم
اپنا دیس اور اپنی دھرتی سونا اگلے ہر اک کھیتی
اس کے ہی گن گائیں ہم اس سے پیار بڑھائیں ہم
اس تک بڑھنے والے ہاتھ دینگے ہم فوراً ہی کاٹ
ترچھی نظر سے کوئی دیکھے یہ بھی سہہ نہ پائیں ہم
عزت حرمت شان اور شوکت دولت عظمت اور اخوت
دینا خدایا ہر دم برکت مانگیں یہی دعائیں ہم
اس دھرتی کا بچہ بچہ اس دھرتی کا ہر جوان
اس کے ہی گن گاتا ہے اس کی شان بڑھائیں ہم
صنعت و حرفت اور تجارت علم و ہنر صحت عمارت
حاصل ہے ان سب مہارت کل عالم پر چھائیں ہم
سبز ہلالی پرچم لے کر نعرہ یہ لگائیں ہم
پاکستان کی عزت شہرت دنیا میں بڑھائیں
آمین
اردو شاعری
منزل کی جستجو میں تو چلنا بھی شرط تھا
چنگاریوں کے کھیل میں جلنا بھی شرط تھا
یہ اذن تھا کہ خواب ہوں رنگین خون سے
اور جاگنے پہ رنگ بدلنا بھی شرط تھا
مجروح ہو کے درد چھپانا تھا لازمی
اور زخم آشنائی کا پھلنا بھی شرط تھا
گرنا تھا ہو قدم پہ مگر حوصلے کے ساتھ
اور گر کے بار بار سنھبلنا بھی شرط تھا
اُس حسن سرد مہر کے قانون تھے عجیب
اپنا جگر چبا کے نگلنا بھی شرط تھا
اپنے خلاف فیصلہ لکھنا تھا خود مجھے
پھر اُس بریدہ ہاتھ کو ملنا بھی شرط تھا
یاسمین حبیب
Subscribe to:
Posts (Atom)