Monday, 28 April 2014

محبت گولیوں سے

محبت گولیوں سے‘ بو رہے ہو 

وطن کا چہرہ‘ خُوں سے دھو رہے ہو 

گُماں تم کو‘ کہ رستہ کٹ رہا ہے 

یقین مجھ کو‘ کہ منزل کھو رہے ہو”

Saturday, 26 April 2014

تو نے خلوت میں جو آنے کی قسم کھائی ہے۔۔۔ ۔۔مولانا مشرف علی تھانوی

تو نے خلوت میں جو آنے کی قسم کھائی ہے 
اب تو آجا کہ شب تار ہے تنہائی ہے

دل وہی دل ہے جو بس تیرا تمنائی ہے 
تیرا جلوہ ہی مری آنکھ کی بینائی ہے

عشق میرا تری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں 
مقصد زیست ترے در کی جبیں سائی ہے

میری آنکھوں کے لئے جوہرِ بیداد ہے تو 
میرے دل کے لئے تو حسن کی رعنائی ہے

تو مرے خوابوں کی تعبیر ہے اے میرے خدا
میرا ہمدم ہے مرا مونس تنہائی ہے

تجھ کو دیکھے یہ مری آنکھ کا یارا ہی نہیں 
دل میں آ جائے تو یہ تیری پذیرائی ہے

عجب فیض ہے آقا ﷺتیری محبت کا



عجب فیض ہے آقا ﷺتیری محبت کا
درود تُجھ پر پڑھوں اور خود سنور جاؤں


کفن پہناؤ تو خاکِ مدینہ مُنہ پہ مَل دینا
یہی بس ایک صُورت ہے خُدا کو مُنہ دِکھانے کی


مزہ دیتی ہیں زندگی کی ٹھوکریں اُن کو محسنؔ
جنہیں نامِ خُدا لے کر سنبھل جانے کی عادت ہو


سجدوں کے عوض فردوس ملے، یہ بات مجھے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں تیرا، مزدور نہیں
__________________

علیم صبا نویدی کے کلام سے انتخاب

علیم صبا نویدی کے کلام سے انتخاب

ایک عالم میں رہا میرا وجود
سات عالم میں رہا میرا سفر

ظاہراً روشن تھے سب کے سب یہاں
اپنے باطن میں منور کون تھا

کہیں ظاہر میں وہ نہیں موجود
پھر یہ باطن میں شان کس کی ہے

لہو لہو ہوا ہے جب سے یہ آسمانی سفر
نظر میں رشتہء فکرِ سُراغ جاگا ہے

میں نہ تھا تو میرے اندر کون تھا
قطرہ قطرہ اک سمندر کون تھا

میں تو باہر ہوں ہر طرف موجود
پھر یہ اندر کا سلسلہ کیا ہے؟

جو سماں باہر ہے میرے، وہ سماں اندر نہیں
لامکاں باہر ہوں لیکن لامکاں اندر نہیں

ایک قطرے میں ہیں سمندر کے بھید
آخری حد چھو گیا پہلا سفر

وہ قطرہ جو وسعت میں تھا کائنات
سمندر کے سینے کی دھڑکن ہوا

میں اندھیرا تھا تو پس منظر میں پھر
ضو فشاں، اندر یہ منظر کون تھا

میرا رشتہ، ان مٹ رشتہ
میں ہی میں ہوں، ازل ابد میں

جسم مٹی کا ڈھیر ہے لیکن
ذات کا دائرہ منور ہے

میں نے دیکھی جو کائناتِ دل
میرے اندر بھی آسماں نکلا

Friday, 25 April 2014

کہاں تک ساتھ دو گے تم

کہاں تک ساتھ دو گے تم بتاؤ تو ! مجھے بھی کچھ تسلّی ہو جوانی کے میلوں تک یا لا شعور کھیلوں تک بتاؤ تو ! کہاں تک ساتھ دو گے تم میرے بدنام ہونے تک یا پِھر گمنام ہونے تک مجھے بھی کچھ تسلّی ہو بتاؤ تو !

چمکتا چاند سا چہرہ

چمکتا چاند سا چہرہ کھنکتا شو خ سالہجہ دیے جلتے ہیں آنکھوں میں بڑی شوخی ہے باتوں میں فضائیں دیکھ کر اس کو خوشی سے جھوم جاتی ہیں چمکتی رات اسکے نین میں سپنے جگاتی ہے ۔ ۔ ۔ تمازت دھوپ کی چہر ے پہ اسکے گل کھلاتی ہے ۔ ۔ ۔ کبھی بارش کے موسم میں سہانے کھیل کشتی کے کبھی گڑیوں کی شادی ہو کبھی گیتوں کی بازی ہو یہ ہر دم پیش رہتی ہے بڑی الہڑ سی لڑکی ہے یہ کتنی شو خ لڑکی ہے ؟

Jarga System


Ikhwan


باغ جنت کی نازنی

وہ باغ جنت کی نازنی جو تمہاری دلہن بنی کھڑی ہے
تمہی تو دلہا ہو دیرکیسی یہ سرخ مہندی لگا کے دیکھو
نہیں ہے ناداں کو کچھ خبر یہ شعور والے ہی جانتے ہے 
خدا کے جو میزبانیاں ہیں وفا کی رسمیں نبا کے دیکھو