محبت گولیوں سے‘ بو رہے ہو
وطن کا چہرہ‘ خُوں سے دھو رہے ہو
گُماں تم کو‘ کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو‘ کہ منزل کھو رہے ہو”
محبت گولیوں سے‘ بو رہے ہو
وطن کا چہرہ‘ خُوں سے دھو رہے ہو
گُماں تم کو‘ کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقین مجھ کو‘ کہ منزل کھو رہے ہو”
علیم صبا نویدی کے کلام سے انتخاب
ایک عالم میں رہا میرا وجود
سات عالم میں رہا میرا سفر
ظاہراً روشن تھے سب کے سب یہاں
اپنے باطن میں منور کون تھا
کہیں ظاہر میں وہ نہیں موجود
پھر یہ باطن میں شان کس کی ہے
لہو لہو ہوا ہے جب سے یہ آسمانی سفر
نظر میں رشتہء فکرِ سُراغ جاگا ہے
میں نہ تھا تو میرے اندر کون تھا
قطرہ قطرہ اک سمندر کون تھا
میں تو باہر ہوں ہر طرف موجود
پھر یہ اندر کا سلسلہ کیا ہے؟
جو سماں باہر ہے میرے، وہ سماں اندر نہیں
لامکاں باہر ہوں لیکن لامکاں اندر نہیں
ایک قطرے میں ہیں سمندر کے بھید
آخری حد چھو گیا پہلا سفر
وہ قطرہ جو وسعت میں تھا کائنات
سمندر کے سینے کی دھڑکن ہوا
میں اندھیرا تھا تو پس منظر میں پھر
ضو فشاں، اندر یہ منظر کون تھا
میرا رشتہ، ان مٹ رشتہ
میں ہی میں ہوں، ازل ابد میں
جسم مٹی کا ڈھیر ہے لیکن
ذات کا دائرہ منور ہے
میں نے دیکھی جو کائناتِ دل
میرے اندر بھی آسماں نکلا