فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا، جماعت اسلامی زیر عتاب تھی اس لیے اجتماع عام کی اجازت ہونے کے باوجود لائوڈاسپیکر کے استعمال پر پابندتھی۔ مولانا مودودیؒ کی فکرِ رسا نے عجیب تدبیر ڈھونڈ نکالی۔ اجتماعِ عام میں پہلے دن مولانا مودودیؒ نے جو خطاب کرنا تھا انہوں نے اُسے تحریر کر لیا پھر اجتماع عام کے پنڈال میں ہر پچاس فٹ کے فاصلے پر ایک انسانی’’ سپیکر‘‘ کھڑا تھا۔
گویاایک اور’’مودودی‘‘ تقریر پڑھ کر اپنے سامنے والوں کو سنا رہا تھا۔ یوں پورا پنڈال پوری یکسوئی سے بیک وقت ایک ہی تقریر سن رہا تھا۔ میں بھی اس پنڈال میں ’’اصل مودودی صاحب ‘‘ سے کوئی تیس پینتیس فٹ کے فاصلے پر کھڑا یہ تقریر سن رہا تھا ۔ اچانک گولی چلنے کی آواز آئی،کچھ سرکاری غنڈے اسٹیج کی دائیں جانب سے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور کارکنان انہیں روکنیکے لیے کوشاں تھے۔اسی موقع پر جب کسی نے گھبراہٹ میں مولانا مودودیؒ کوبیٹھ جانے کا کہا،تو انہوں نے وہ تاریخ ساز جملہ کہاجو ہمیشہ کے لییامر ہوگیا،’’اگر آج میں بیٹھ گیا،تو پھر کھڑا کون رہے گا۔‘‘
چند لمحوں بعد یہ روح فر سا خبر ملی کی جماعت اسلامی کا ایک قیمتی ساتھی اللہ بخش غنڈو ں کو روکتے روکتے گولی لگنے سے شہید ہوگیا ہے۔ چند لمحوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد مجمع پھر پر سکون ہوچکا تھا۔ مولانا مودودیؒاور دیگر ’’مودودیوں‘‘ کی آواز ایک بار پھر گونجنا شروع ہو ئی اور حاضرین نے یہ پورا خطاب پورے اطمینان اور یکسوئی سے سن لیا۔ خطاب کے بعد لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ میں بھی استاد مکرم کے ہمراہ اجتماع گاہ کے گجرات/گوجرانوالہ کیمپ لوٹ آیا۔
No comments:
Post a Comment