Tuesday, 24 September 2013

سید ابولاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ

میاں محمد عبد الشکور

فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا، جماعت اسلامی زیر عتاب تھی اس لیے اجتماع عام کی اجازت ہونے کے باوجود لائوڈاسپیکر کے استعمال پر پابندتھی۔ مولانا مودودیؒ کی فکرِ رسا نے عجیب تدبیر ڈھونڈ نکالی۔ اجتماعِ عام میں پہلے دن مولانا مودودیؒ نے جو خطاب کرنا تھا انہوں نے اُسے تحریر کر لیا پھر اجتماع عام کے پنڈال میں ہر پچاس فٹ کے فاصلے پر ایک انسانی’’ سپیکر‘‘ کھڑا تھا۔
گویاایک اور’’مودودی‘‘ تقریر پڑھ کر اپنے سامنے والوں کو سنا رہا تھا۔ یوں پورا پنڈال پوری یکسوئی سے بیک وقت ایک ہی تقریر سن رہا تھا۔ میں بھی اس پنڈال میں ’’اصل مودودی صاحب ‘‘ سے کوئی تیس پینتیس فٹ کے فاصلے پر کھڑا یہ تقریر سن رہا تھا ۔ اچانک گولی چلنے کی آواز آئی،کچھ سرکاری غنڈے اسٹیج کی دائیں جانب سے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور کارکنان انہیں روکنیکے لیے کوشاں تھے۔اسی موقع پر جب کسی نے گھبراہٹ میں مولانا مودودیؒ کوبیٹھ جانے کا کہا،تو انہوں نے وہ تاریخ ساز جملہ کہاجو ہمیشہ کے لییامر ہوگیا،’’اگر آج میں بیٹھ گیا،تو پھر کھڑا کون رہے گا۔‘‘
چند لمحوں بعد یہ روح فر سا خبر ملی کی جماعت اسلامی کا ایک قیمتی ساتھی اللہ بخش غنڈو ں کو روکتے روکتے گولی لگنے سے شہید ہوگیا ہے۔ چند لمحوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد مجمع پھر پر سکون ہوچکا تھا۔ مولانا مودودیؒاور دیگر ’’مودودیوں‘‘ کی آواز ایک بار پھر گونجنا شروع ہو ئی اور حاضرین نے یہ پورا خطاب پورے اطمینان اور یکسوئی سے سن لیا۔ خطاب کے بعد لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ میں بھی استاد مکرم کے ہمراہ اجتماع گاہ کے گجرات/گوجرانوالہ کیمپ لوٹ آیا۔

Monday, 23 September 2013

سید ابولاعلیٰ مودودی رح //urdudigest.pk/2013/09/molana-abu-ul-ali-mododi#sthash.D6ZS7KPR.dpuf

ھیک طرح یاد نہیںمیں نے سید ابو الا علیٰ مودودیؒ صاحب کا نام کب اور کس سے سنا تھا ۔ اتنا یاد ہے کہ جب یہ نام سنا، تو انوکھا سا اور بھلا سا لگا۔ انوکھا اس لیے کہ ہمارے ہاں دیہات میں (اور میں خود دیہاتی ہوں) عام طور پر نام اللہ دتہ، غلام حسین،لال خان، موج دین قسم کے ہوتے تھے اور ایسے ناموں میں ابو الا علیٰ واقعی انوکھا تھا اور بھلا اس لیے لگاکہ نام میں سید اور اعلیٰ پن کی موجودگی دل کو بھانے والی تھی۔یہ خیال پہلے دن سے آج تک نہ صرف بر قرار ہے بلکہ اس کی چاشنی میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔
میری عمر پانچ چھ سال ہوگی جب میں نے اپنے گھر والوں سے یہ خبر سنی کہ مولانا مودودیؒ کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ سزائے موت کی خبر میرے ارد گردبہت سے چہروں کو مرجھا گئی۔ اس خبر نے میرے بے خبر بچپنے کو بھی اتنا ہی مضطرب کیا جتنا کئی با خبر جوانیوں کو۔پھر معلوم ہوا کہ ملکی اور بین الاقوامی دبائو اور احتجاج نے سزائے موت کو عمر قید اور عمر قید کو رہائی میں بدل دیا ہے۔ یہ گویا مولانا مودودیؒ سے میرا پہلا غائبانہ تعارف تھا۔
میں پرائمری اسکول سے ہائی اسکول میں منتقل ہوا، تو ایک انتہائی شفیق استاد کنور سعید اللہ خان سے واسطہ پڑا۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ لاہور موچی دروازے میں جماعت اسلامی کا تین روزہ سالانہ اجتماع ہونے والا ہے۔ ہمارے کئی اساتذہ اس میں شرکت کے لیے
جائیں گے اور اگر میں بھی جاناچاہوں،تو وہ مجھے بھی اپنے ہمراہ لے جانے کے لیے تیار ہیں۔مولانا مودودیؒ جیسی عظیم شخصیت کو ملنے اور لاہور جیسے بڑے شہر کو دیکھنے کی آفر ملے،تو کون کافر انکار کی جرأت کر سکتاتھا۔میں نے بھی فوراً ہاں کردی اور اکتوبر1963ء کو ہمارا چھوٹا ساقافلہ جس میں ‘میں ہی سب سے چھوٹا تھا موچی گیٹ لاہور پہنچ گیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا، جماعت اسلامی زیر عتاب تھی اس لیے اجتماع عام کی اجازت ہونے کے باوجود لائوڈاسپیکر کے استعمال پر پابندتھی۔ مولانا مودودیؒ کی فکرِ رسا نے عجیب تدبیر ڈھونڈ نکالی۔ اجتماعِ عام میں پہلے دن مولانا مودودیؒ نے جو خطاب کرنا تھا انہوں نے اُسے تحریر کر لیا پھر اجتماع عام کے پنڈال میں ہر پچاس فٹ کے فاصلے پر ایک انسانی’’ سپیکر‘‘ کھڑا تھا۔
گویاایک اور’’مودودی‘‘ تقریر پڑھ کر اپنے سامنے والوں کو سنا رہا تھا۔ یوں پورا پنڈال پوری یکسوئی سے بیک وقت ایک ہی تقریر سن رہا تھا۔ میں بھی اس پنڈال میں ’’اصل مودودی صاحب ‘‘ سے کوئی تیس پینتیس فٹ کے فاصلے پر کھڑا یہ تقریر سن رہا تھا ۔ اچانک گولی چلنے کی آواز آئی،کچھ سرکاری غنڈے اسٹیج کی دائیں جانب سے اندر گھسنے کی کوشش کر رہے تھے اور کارکنان انہیں روکنیکے لیے کوشاں تھے۔اسی موقع پر جب کسی نے گھبراہٹ میں مولانا مودودیؒ کوبیٹھ جانے کا کہا،تو انہوں نے وہ تاریخ ساز جملہ کہاجو ہمیشہ کے لییامر ہوگیا،’’اگر آج میں بیٹھ گیا،تو پھر کھڑا کون رہے گا۔‘‘
چند لمحوں بعد یہ روح فر سا خبر ملی کی جماعت اسلامی کا ایک قیمتی ساتھی اللہ بخش غنڈو ں کو روکتے روکتے گولی لگنے سے شہید ہوگیا ہے۔ چند لمحوں کی ہنگامہ آرائی کے بعد مجمع پھر پر سکون ہوچکا تھا۔ مولانا مودودیؒاور دیگر ’’مودودیوں‘‘ کی آواز ایک بار پھر گونجنا شروع ہو ئی اور حاضرین نے یہ پورا خطاب پورے اطمینان اور یکسوئی سے سن لیا۔ خطاب کے بعد لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں کی طرف روانہ ہوگئے۔ میں بھی استاد مکرم کے ہمراہ اجتماع گاہ کے گجرات/گوجرانوالہ کیمپ لوٹ آیا۔
کچھ دیر بعد کیمپ میںپھر ہلچل شروع ہوئی، معلوم ہوامولانامودودیؒ مختلف رہائشی کیمپوں میں حاضرین اجتماع سے بنفسِ نفیس ملتے ملاتے ہمارے کیمپ میں تشریف لا رہے ہیں۔ ایک خیال نے دل میں گدگدی پیدا کی’’ کیا میں مودودی صاحب کو قریب سے دیکھ پائوں گا۔ اتنا قریب سے کہ مصافحہ کر سکوں‘‘ سوچ کی یہ لہر ابھی پوری طرح گزر بھی نہ پائی تھی کہ ایک بہت ہی خوبصورت چہرہ بادامی رنگ کی شیروانی میں ملبوس چھوٹے چھوٹے قدم ا ٹھاتا عین ہمارے درمیان موجود تھا۔ میں نے بے ساختگی اور وارفتگی میں اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے آگے بڑھا دیا۔ یہ عام فوٹو گرافی کا زمانہ نہ تھا۔ تاہم ایسے لگا کہ میری آنکھوں نے جلدی جلدی درجن بھر تصویروں کے پرنٹ اپنے ذہن کی تختی پر اتا ر لیے ہیں۔ یہ مولانا مودودیؒ سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی جس کی جھلکیاں کسی زبردست کیمرے سے اتاری گئی تصویروں سے کہیںزیادہ شفاف آج بھی میرے دل و دماغ میں پوری طرح محفوظ ہیں۔
اب میںا سکول سے کالج اور پھر کالج سے پنجاب یونیورسٹی پہنچ گیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات مکمل ہوچکے تھے اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات نے مجھے بطور صدر اور سید احسان اللہ وقاص کو بطور سیکرٹری منتخب کر لیا تھا۔نئی اسٹوڈنٹس یونین کی تقریب حلف برداری کا مرحلہ سر پر پہنچا تھا۔سید احسان اللہ وقاص، حفیظ اللہ نیازی اور میں اسلام آباد کی طرف رواں دواں تھے ۔ نواب زادہ نصر اللہ،پروفیسر غفور احمداور ممتاز قانون دان اے کے بروہی کے نام ذہن میں گردش کر رہے تھے۔ہماری خواہش تھی ان میں سے کسی سے وقت مل جائے،تو اپریل کے آغاز میں ہم تقریب کا اہتمام کر لیں۔ ہم آبپارہ مارکیٹ کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اچانک بجلی کی سی سرعت سے ذہن میں ایک خیال ابھرا، مولانا مودودی صاحب بھی آج کل آرام اور علاج کی خاطر اسلام آباد میں ہیں، کیوں نہ ان سے مہمانِ خصوصی بننے کی درخواست کی جائے۔
سید احسان اللہ وقاص اور حفیظ اللہ نیازی دونوں نے میرے اس خیال کومسترد کردیا۔ مولانا مودودیؒ صحت مند اور لاہور میں موجود ہوتے تب بھی اپنی مصروفیات کے باعث تشریف نہ لاتے، اب تو بالکل ہی ممکن نظر نہیں آتا، یہ دونوں کی رائے تھی۔میں نے گزارش کی کہ مجھے آپ سے اتفاق ہے،پھر بھی اسی بہانے مولانا مودودیؒ کی زیارت کرلینے میں کیا حرج ہے۔ دونوں نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا’’ خیال تو اچھا ہے‘‘اب ہماری گاڑی مولانا مودودیؒ کی اسلام آباد میں موجودعارضی رہائش گاہ کی جانب رواں دواںتھی۔
ان کے گھر پہنچ کر ہم نے گھنٹی بجائی۔چند لمحوں بعد دروازہ کھلا، پائوں میں لکڑی کے کھڑاواں پہنے ہولے ہولے قدم اٹھاتے مولاناخود دروازہ کھولنے تشریف لائے تھے، ہم ٹھٹک سے گئے، ایک خوشگوار مسکراہٹ نے حوصلہ دیا’’آئیے تشریف لایے۔‘‘ہم مولاناکے پیچھے پیچھے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔سامنے کرسیاں بچھی تھیں،مولانامودودیؒ کے تشریف رکھنے کے بعد ہم بھی بیٹھ
گئے۔ابھی سنبھلے بھی نہ تھے کہ مولانا کی آواز سنائی دی ’’کیسے آنا ہوا ہے؟‘‘میں نے اکھڑی اکھڑی سانسوں کوسنبھالتے ہوئے کہا ’’مولانا صحت کی خرابی کے باعث شاید آپ مانیں گے تو نہیں،پھر بھی دل چاہتا ہے کہ آپ سے گزارش کروںکہ آپ ہماری تقریب حلف برداری میں بطور مہمان خصوصی تشریف لائیں‘‘کسی نہ کسی طرح میں نے اپنا جملہ مکمل کردیا۔ تھوڑی دیر فضا میں
خاموشی رہی۔مولاناؒ کا چہرہ سوچ میں ڈوبا تھا،پھر ایک خوشگوار آواز ابھری’’آپ یہ تقریب کب کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ہمارے کانوں کو جیسے یقین نہ آرہا ہو، میں نے سوچے سمجھے بغیر جواب دیا مولانا آپ کے لییجب بھی ممکن ہو ۔مولانا مسکرائے اور فرمایا ’’اچھا تو میں 23اپریل کو واپس لاہور لوٹ رہا ہوں چنددن تو سفر کی تکان رہے۔گی آپ29اپریل کو تقریب رکھ لیجئے۔‘‘مولانامودودیؒ سچ مچ ہماری تقریب میں مہمان خصوصی ہوں گے!ہم یہ ناقابل یقین خبر لے کر واپس لاہور لوٹ رہے تھے۔ جس جس نے سنا حیرت زدہ رہ گیا۔پنجاب یونیورسٹی کے فیصل آڈیٹوریم میں تقریب کی
تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں۔ ان دنوں ملک غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر تھے ۔ انھیں کسی طور بھی یہ بات گوارانہ تھی کہ مولانا مودودیؒ ان کی گورنر شپ میں یونیورسٹی تشریف لائیں۔
تقریب کے انعقاد میںصرف ایک دن باقی تھا۔ ہم چند دوست نماز عصر کے وقت مودودیؒ کی رہائش /5اے ذیلدار پارک پہنچے تاکہ اگلے دن مولانا محترم کی یونیورسٹی آمد کے پروگرام کو حتمی شکل دے سکیں۔ا چانک یونیورسٹی وائس چانسلر کی گاڑی/5اے ذیلدار پارک آکررکی۔ وائس چانسلر شیخ امتیاز علی باہر نکلے اور سیدھے مولانا کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ ہمارے دل خوف اور اضطراب سے دھڑکنے لگے۔ایک مختصر ملاقات کے بعد شیخ امتیاز علی باہر نکلے اور دائیں بائیں نظر دوڑائے بغیر گاڑی میں سوار ہو کر واپس روانہ ہوگئے۔
خطرے کی گھنٹیاں کانوں میں بجنے لگیں۔ اللہ خیر کرے شیخ امتیاز علی آئے، مولانا محترم سے ملے اور پھر پُھرتی سے لوٹ گئے۔دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔اتنے میں ادھیڑ عمر کے ایک صاحب میرے پاس آئے اور آہستہ سے کہا مولانا مودودیؒ آپ کو بلا رہے ہیں۔میں تیز قدموں اور دھڑکتے دل سے مولانا کے کمرے میں داخل ہوا۔مولانا نے لفافے میں بند ایک مختصر خط میرے حوالے کیا اور فرمایا اسے پڑھ لیجئے۔خط کھولنے سے قبل ہی مجھے پوری طرح اندازہ ہوگیا تھا۔ خط کھولا تو لکھاتھا
زمین پائوں کے نیچے سے سر کنے لگی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا ۔ دل نے سوچا ’’دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے‘‘۔ذہن میں کئی سارے سوال ابھرے،ڈوبے اور پھر اُبھرے مگر کوئی مکمل جملہ نہ بن پایا، ’’دیکھیے مولانا…مگر…لیکن… پھر جیسے مولانا نے میرے سارے اَن کہے جملے سن لیے ہوں۔’’میرے عزیز میں کبھی کسی کے خوف کے باعث اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرتا، تاہم اسے معیوب سمجھتا ہوں کہ ادارے کا سربراہ آکر مجھ سے درخواست کرے اور میں اس کی درخواست کا احترام نہ کروں۔مجھے معلوم ہے کہ وقت کم ہے اور آپ لوگوں کے لیے متبادل مہمان خصوصی کا بندوبست کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے میں ابھی پروفیسر غفور احمد صاحب کو فون کر رہا ہوں، وہ کل آپ کی تقریب کے مہمانِ خصوصی ہوںگے۔
مجھے میرے سارے کہے اور ان کہے سوالوں کا جواب مل چکا تھا، میں اطمینان اور اضطراب کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ذیلدارپارک سے باہر نکلا اور اپنے ساتھیوں اور یونیورسٹی طلبہ کو اطلاع دی۔ بدلی ہوئی صورت حال کو ہضم کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہ تھا۔ تاہم مولاناؒکے واضح اور پر عزم فیصلے نے ہمیں کسی بڑے بحران سے بچا لیا۔ عجیب اتفاق دیکھیے کہ مصطفی کھر کو چند ہی مہینوں میں گورنری سے ہاتھ دھونا پڑے، میں نے سید مودودیؒ کو ایک بار پھر یونیورسٹی تشریف لانے کی دعوت دی اور انہوں نے پہلی اور آخری بار یونیورسٹی میں طلبہ و اساتذہ سے’’سیرت کا پیغام‘‘ پہ وہ معرکتہ الآراء خطاب کیا جو ان کی کتاب’’ سیرت سرور عالم‘‘کا اب باقاعدہ حصہ ہے۔
1972ء جمعیت کا سالانہ اجتماع ہونے والا تھا ناظم اعلیٰ تسنیم عالم منظر مرحوم لاہور تشریف لائے۔ مجھے بلایا اور کہا ’’ہم قدم‘‘ کے لیے سید مودودیؒ کا انٹر ویو کرنا ہے ۔میرے پاس وقت نہیں آئو مل کر سوالنامہ مرتب کر لیتے ہیں۔ پھر تم سید مودودیؒ سے وقت لے کر انٹرو یو کر لینا۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔سارا سوالنامہ انہوں نے ہی مرتب کیا ،میری بس رسمی رضامندی حاصل کی اور کہا ’’کل ہمیں مظفر آباد جانا ہے، واپسی پر میں ساتھ نہیں ہوں گاتم دوستوں سے مل کر انٹرو یو مکمل کر لینا۔‘‘
اگلے دن ہم مظفر آباد روانہ ہو گئے، واپسی پر وہ واقعی ہمارے ساتھ نہ تھے۔ دریائے نیلم میں نہاتے ہوئے وہ اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور ہم ان کی جدائی کا اندو ہناک غم ساتھ لیے واپس لوٹ رہے تھے۔ کئی دن تو سوگ ہی میں گزر گئے، پھر اس انٹر ویو کا خیال آیا جس کے سارے سوال تسنیم عالم منظر نے خود مرتب کیے تھے۔ برادرم سلیم منصور خالد، متقین الرحمن اور میں مولاناکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انٹر ویو میں کل آٹھ سوال تھے ۔ہم سوال پڑھتے جاتے۔ سید مودودیؒ (صحت کی خرابی کے باعث) آہستہ آہستہ جواب دیتے رہتے۔اتنی آہستہ کہ ہم تینوں آرام سے پوری عبارت لکھ لیتے۔انٹر ویو کا آخری سوال تھا’’مولانا اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ بتائیے، جب آپ نے نصرت خدا وندی کو قریب سے دیکھا ہو‘‘، مولانا کے چہرے پر اضطراب کے آثار نمایاں ہو
گئے ، کچھ خاموشی کے بعد بولے’’بھئی میں بولتے بولتے تھک گیا ہوں اور میرا خیال ہے کہ انٹر ویو کے تقریباً سب سوالوں کے جوابات بھی ہوچکے ہیں، اس لیے آپ اسی پر اکتفا کر لیں۔‘‘ میں نے عرض کی ’’مولانا مرحوم تسنیم عالم منظرنے یہ سوال خاص طور پر لکھا تھا ، اس لیے اس کا جواب ضرور چاہیے ۔آپ تھک گئے ہوں، تو میں کل حاضر ہوسکتا ہوں‘‘۔ مولانا نے مروت میں ’’ناں‘‘ نہیں کہا اگر چہ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ غالباً وہ ’’ناں‘‘ ہی کہنا چاہتے ہیں، ہم اپنے اپنے کاغذات سنبھالے واپس آگئے۔
اگلے روز میں پھر مولانا محترم کے پاس حاضر ہوگیا۔مجھے دیکھا تو ذرا توقف سے کہا ’’اچھا تو آپ پھر آگئے‘‘ یوں لگا مولانا اس سوال کا جواب دینے سے اجتناب کر رہے ہیں، پھر ہولے سے کہا’’آغاشورش نے1968ء میں چٹان مجھ سے ایک انٹر ویو لیا تھا۔ صفدر چودھری صاحب کے پاس وہ شمارہ ہوگا آپ ذرا اسے پڑھ لیجئے‘‘ کچھ سمجھ نہ آیا کہ مولانا نے وہ شمارہ پڑھنے کے لیے مجھے کیوں کہا ،تاہم جرأت انکار نہ ہوسکی۔ میں نے باہر نکل کر صفدر چودھری صاحب سے مطلوبہ شمارہ حاصل کرنے کی کوشش کی ،مگر شمارہ دستیاب نہ ہوسکا۔’’چٹان‘‘ کے دفتر فون کیا اور
پھر وہاں پہنچ کر آغا صاحب سے شمارے کی درخواست کی ،مگر عجیب اتفاق کہ وہاںبھی شمارہ نہ مل پایا۔ اگلے روز پھر ایک بارمیں مولانا کے کمرے میں داخل ہونے کی جسارت کر چکا تھا۔ ایک لطیف سی مسکراہٹ نے میرا استقبال کیا اور پوچھا’’ کیا آپ نے چٹان کا شمارہ پڑھ لیا‘‘ میں نے کہا
مولانا چٹان کا مطلوبہ شمارہ نہ صفدر صاحب سے ملااور نہ چٹان کے دفتر ہی سے دستیاب ہوسکا ہے، شفقت فرمائیے اور میرے سوال کا جواب آپ خود ہی عنایت فرما دیجئے۔ سید مودودی نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر یوں مخاطب ہوئے’’میرا خیال تھا میرے اجتناب سے تم سمجھ گئے ہو گے، میں نے زندگی بھر اس بات کی کوشش کی ہے کہ میری سوچ، گفتگو یا تحریر میںکبھی ’’میں ‘‘غالب نہ آئے ، ضرورت پڑنے پر بھی میں یہ کبھی نہیں کہتا کہ میں نے یہ سوچا ہے یا میں نے یہ فیصلہ کیا ہے، بلکہ میں شعوری طور پر کہتا رہا ہوں کہ جماعت اسلامی نے یہ سوچا ہے یا
جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے مجھے امید ہے اب آپ مجھ سے یہ سوال نہ پوچھیں گے۔ ایک بار پھر میں سکتے میں آچکا تھا ۔ سنبھلا تو میں نے دوبارہ جسارت کی’’ لیکن مولانا آپ نے مجھے چٹان پڑھنے کا مشورہ کیوں دیا‘‘ مولاناگویا ہوئے ’’شورش کاشمیری بھی تمہاری طرح ضدی تھے، جب ان کا اصرار حد سے زیادہ بڑھا، تو میں نے انہیں ایک معمولی واقعہ جس کا تذکرہ امین احسن اصلاحی صاحب اپنی کسی تحریر میں کر چکے تھے، یہ بتائے بغیر سنا دیا ۔
شکست قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ البتہ اُس نشست سے میںیہ طے کرکے اٹھا کہ سید مودودیؒ کی ساری کتابوں کو دوبارہ اس طرح پڑھوں گا کہ اس میںسے’’میں‘‘ ڈھونڈ سکوں۔تفہیم القرآن، خلافت و ملوکیت، تجدید و احیائے دین،سنت کی آئینی حیثیت اور درجنوں دیگر کتابیں کھنگال ڈالیں، لیکن تلاش کے باوجود میں اس میں کہیں بھی’’میں‘‘ نہ ڈھونڈ پایا۔
اس واقعے کو گزرے دو عشرے ہوچکے تھے ۔ایک بار امریکا سے واپسی پر میں اپنے کزن ظفر علی خان صاحب کے گھر لندن میں ٹھہرا ۔رات سونے سے قبل بیڈ روم میں مولانا ابوالحسن علی ندوی(علی میاں) کی کتاب میز پر پڑی دیکھ ’’مسلمانوں کے زوال سے دنیا نے کیا کھویا‘‘ اصل کتاب عربی میں لکھی گئی تھی ،مگر اردو ترجمہ بھی کمال کا تھا۔ کتاب نے رات بھر جگائے رکھا، البتہ حیرت بھی ہوئی کہ کتاب کے ہر ہر صفحے پر’’میں‘‘ غالب تھی۔پھر مولانا ابو الکلام کی کتاب ’’غبارِ خاطر‘‘یاد آئی جو ’’میں ‘‘سے بھر ی پڑی ہے، سید مودودیؒ کے دیگر ہم عصر وں کی تحریریںاور ایک بار پھر مولانا مودودیؒ کا وہ انٹر ویو یادوں کے نہاں خانے سے نکل کر سامنے آکھڑا تھا۔ بیسویں صدی کے مفکرین میں یہ اعزاز صرف مولانا مودودیؒ کو حاصل تھا کہ لاکھوں صفحات پر پھیلی ان کی تحریروں میں آپ’’میں‘‘ کہیں تلاش نہ کرسکیں گے۔
پہاڑ اکثر خوبصورت دکھائی دیتے ہیں،مگر صرف دور سے ۔قریب آنے پر پتھریلی چٹانیں، گہرے کالے غار اور خوف دلانے والی گھاٹیاں سارا حسن غارت کر دیتی ہیں۔مگر ابوالاعلیٰ سید مودودیؒ ایسے پہاڑ تھے جو دور سے تو خوبصورت نظر آتے ہی تھے قریب آنے پر خوبصورت تر دکھائی دینے لگتے۔ میں انہیں بیسیوں بار ملا ہوں۔ان کی ڈھیروں یادیں تتلیاں بن کر حافظے کے باغیچوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔یہ ساری یادیں ،یہ ساری باتیں ہوا کے مہکتے جھونکوں کی طرح ہیں۔ ہر ہر گھونٹ جام شیریں کی طرح۔
’’عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ‘‘

Sunday, 22 September 2013


ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور اخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘ ( سورۃ النور۱۹)۔

نبی اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے ’’ انسان کے دل میں ایمان یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت رکھے‘‘(احمد) ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے ’’دنیا میں تقویٰ اختیار کر،خدا کا محبوب بن جائو گے اور لوگوں کے پاس جوکچھ ہے اس سے بے نیاز ہوجا،لوگوں میں محبوب بن جائے گا‘‘(ابن ماجہ)۔

اصل مرکز محبت اللہ تعالیٰ کی ذات آقدس ہے جوتمام محبتوں کے حصول کے لئے واحد اور آسان ذریعہ ہے او ر اپنے باہمی رشتوں کے مضبوطی کے لئے رب العزت سے تعلق کے مضبوطی لازمی ہے۔محبت کا تقاضا یہ ہے کے صرف اللہ ہی سے محبت اور اللہ ہی کیلئے محبت کیا جائے۔ایک دوسرے سے محبت کے حوالے سے نبی اکرمﷺ کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم اس وقت تک جنت میں نہیں جاسکتے جب تک تم مومن نہ بن جائواور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کرنے لگو ،کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتائو جب تم اس پر عمل کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو، آپس میں سلام پھیلائو (صحیح مسلم)۔

۱۴ فروری کو عالمی یوم محبت کے طور پر منایا جاتاہے۔ایک ایسی محبت کہ جس نے ہمیں ایک دوسرے سے متنفر اور جدا کردیا ہم سے درست اور غلط کے پہنچان ختم کردیا۔ایک ایسی محبت کے طور پر جو اپنے حقیقی شکل کھوکر غیر حقیقی جوش وجذبے کے شکل اختیار کرچکی ہے۔جس کے وجہ سے غیر شرعی اور غیر اخلاقی تعلقات جنم لیتے ہیں ایک ایسی محبت جس کے وجہ سے مسلمانوں میں شرم وحیاء کی صفت سرے سے ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ محبت فحاشی وعریانی کا ایک طوفان ہے جو اہل کفر کے عشرت گاہوں سے اٹھا ہے اور مسلم دنیاء خصوصا پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیے جارہا ہے ۔ٹی وی ، کیبل ، ڈش ، سی ڈیز ، موبائل اور انٹر نیٹ وغیرہ ایسے ذرائع ہیں جنہوں نے کفر کی اس ثقافتی یلغار کو مسلمانوں کے گھر گھر پہنچادیا ہے۔ چنانچہ بے حیائی اور اخلاق باختگی کے وہ مناظر جو باطل کا خاصہ ہیں، آج مسلمانوں میں بھی ترویج پاچکے ہیں۔

۱۴فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم محبت کے نام پرنام نہاد روشن خیالی کی انتہا کی جاتی ہے۔ انسانوں کو تاریخ کے بارے میں بیوقوف بنایا جاتاہے۔ پاکستانی نوجوان یورپ کے نقائص ذہن میں لیے ،آج کے دن کچھ نئے منصوبوں سے اپنے دن کا آغاز کرتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمان اور پاکستانی نہیں بلکہ یورپ کا ایک باشندہ تصور کرتا ہے۔ ۱۴ فرور ی ویلنٹائن ڈے کے طور پر منا کر ہم حیاء کی آخری حدود پھلانگ جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ پچھلے دنوں ایک سروے میں عورتوں اور جوان لڑکیوں کا آپنے گھروں سے نکل کر بھاگنے کی شرح میں جس طرح روز بروز تیزی آرہی ہے ،یہ پاکستانی قوم کے لئے زہرِ قاتل سے بھی زیادہ ہے۔

عورت کے تقدس کو اخر کس نے پامال کیا؟وہ عورت جسے اللہ تعالیٰ نے گھر کی زینت بنائی ہے ،جوگھر میں چراغ کے مانند ہے ،گھر بساتی ہے اور محبت قائم رکھتی ہے لیکن مغرب کی مادر پدر آزادی نے اسے نائٹ کلبوں میں گھسیٹ لائی او راس کی ویلنٹائن ڈے جیسے بے حیائی عام کرنے والے تہواروں سے وہ تذلیل کرائی کہ جس سے حیوانیت بھی شرما جاتی ہے۔عورت کا حقیقی محافظ تو صرف اسلام ہے بلکہ عورت کا فطری تقدس اور نسوانی حرمت صرف اسلام کے قلعے میں محفوظ ہے ۔اسلام نے عورت کو اپنی آغوش میں لیکر ماں کا تقدس ، بیوی کا پیار،بہن کی محبت اور بیٹی کی تربیت کی ابدی ضمانت وحمایت عطا فرمائی ۔

یورپ کی حیوانی تمدن میں آزادی اور مساوات کے نام پر عورت کی ساری متاع لوٹ لی۔ آزادئی نسواں اور تحفظِ حقوقِ نسواں کے نام پرعورت کو اس کی فطرت سے آزاد کردیا گیا ،جس کی وجہ سے عورت اپنے تمام خاصیتوں سے آزاد ہوچکی ہے ۔اوراس کے اثرات پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔

اسلام نے عورت کو مرد کا لباس کہا لیکن مرد نے عورت کو اپنا لباس نہیں سمجھا ،بلکہ اپنے لباس کو سائن بورڈ، اشتہارات،ٹی وی چینلز اور بازار کا حسن بنالیا ہے۔ گھر کی زینت کو بازار کی زینت بنانے کے بیہودہ کوشش میں ہم آگے جارہے ہیں۔آپ کسی لڑکی کو پھول دیتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ دیکھنے یا سننے والا تمہاری بہن کو بھی دے سکتاہے، راستہ تو آپ خود دکھارہے ہیں۔ سوچ تو دوسروں کی ماں ،بہن ، بیوی اور بیٹی کی طرف جاتی ہیں لیکن خود اپنے ہی گھر کی زینت ہمارے ذہنوں سے نکل گئی ہے کہ ہم دوسرے گھر کی ماں ، دوسرے کی بیوی اور بہن اپنے نظروں سے اوپر کرنے کی کوشش تو کررہے ہے لیکن اگر کوئی دوسرا مرد ہماری گھر کی محبت کو میلی آنکھ سے دیکھ لے تو حشر کیا ہوگا۔

یہ ہمارے ساتھ کس نے کیا؟ کس نے ہمیں بے ہودہ بنایا؟کس نے مسلمان بھائیوں کو مسلمان بہنوں کے ہاتھ میں پھول دینے کا طریقہ سکھایا؟؟کس چیز نے مسلمان بہنوں کو اپنے گھر سے نکل کر بھاگنے پر مجورکیا؟ کس نے یہ سارے طریقے سکھائے؟اصل ذمہ دار ہمارا مخلوط تعلیمی نظام اور ہماری میڈیا ہیں ۔ جس نے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نئے نئے اندازسے فیشن متعارف کیے ہیں اور فیشن یہی کہ نبی اکرم ﷺ کے سنت کی خلاف ورزی فیشن سمجھی جاتی ہے۔ہماری میڈیا ہمیں بے ہودہ فلمیں اورڈرامے دکھاتی ہے ہمیں ویلنٹائن ڈے جیسی بے حیائی کوکھلِ عام منانے پر اُبھارتی ہے ویلنٹائن ڈے دراصل بے حیائی کی انتہا کرنے کا دن ہے۔ اہل مغرب بے حیاڈے منارہے ہے تو اہل مشرق حیا ڈے کیوں نہیں مناتے ؟؟؟

ایک حدیث مبارکہ ہے کہ’’ حیا ایمان کا حصہ ہے ‘‘ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے ’’ کہ جو حیا نہ کرے تو پھر جو جی چاہے کریں‘‘ اس لئے پاکستانی جوان لڑکوں اور لڑکیوں اور خاص کر طلبہ وطالبات سے گزارش ہے کہ آج کے دن کو حیاڈے کے طور پر منائیں تاکہ اہل مغرب کی طرف سے ہمیں بے حیاقوم بنانے کے اس منصوبے کو ناکام بنادیا جائے۔
فساد قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک وخیال بلند و ذوق لطیف

اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے خوب کہا تھاکہ
حیا نہیں زمانے کے آنکھ میں باقی
خداکرے کی جوانی تیری راہے بے داغ

اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم تجھ سے تیری محبت اور ہر اس شخص کی محبت کا سوال کرتے ہیں جو تجھ سے محبت کرتا ہے اوراس عمل کی محبت بھی جو ہمیں تیری محبت کے قریب کردیں۔ (آمین)
1930تا1940کا عشرہ اُمت مسلمہ اور خاص کر برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اسی عشرے میں تحریک آزادی میں تیزی آئی اور اسی عشرے میں تحریک آزادی کے عظیم ہیرو حضرت علامہ اقبال ؒ جس نے اپنے شعرو شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا اس دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اسی عشر ے میں زیارت کاکا صاحب کے مبارک سرزمین پر شاعر مشرق کے خوابوں کی عملی تعبیر اتحاد اُمت کے داعی معروف عالم دین مولانا عبد الرب کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہو جسکا نام حسین احمد رکھا گیا بے شمار صلاحیتوں کے مالک حسین احمد ابتدائی علوم کے بعد صوبہ سرحد کی معروف درسگا اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے اور یہاں سے رخت سفر باندھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے صالح قافلے کے راہی بنے توآہستہ آہستہ قافلہراہ حق میں داخل ہوکر دین اسلام کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ نام پورے ملک میں جانا پہچانا نام بن گیا اورآخر کار 1987میں قافلہ سخت جاں سید ابوعلیٰ مودودی ؒ کے جانشین منتخب ہوکر اراکین جماعت اسلامی پاکستان کے سامنے کھڑے ہوکر یہ عہدکیا
’’کہ میں جسے جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا ہے، جماعت کی جو امانتیں میرے سپرد کی جائیگی انکی اور نظام جماعت کی پوری پوری حفاطت کرونگا اور جماعت کے دستور کا پابنداور وفا دار رہونگا اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو وفا کرنے کے توفیق عطاء فرمائے آمین ــ‘‘ ۔
دور امارت میں جو عہد کیا اس عہد سے وفا کیا اور کمزوری کی وجہ سے مزید امارت سے معذرت کی۔

پچھلے سال کے آخرمیں کراچی جانے کا تفاق ہوا ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کے مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کہ کاروان انقلاب کے کڑے سفر کاتھکا مسافر پروفیسر عبد الغفور احمد صاحبؒ اپنے رب کو پیارے ہوگئے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں سیاسی و دینی رہنماوں سمیت لوگوں نے شرکت کی ان میں قاضی حسین احمدبیماری کو ٹال کر شریک تھے جنازے پر یہ الفاظ ادا کئے کہ ہم بھی بہت جلد آپ سے ملنے والے ہے قاضی حسین احمد نے اپنے اس ہمسفر انقلاب کے جنازے کو کندھا دیکر اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا لیکن کیا معلوم تھاکہ یہ کندھا دینے والے کو بھی جلد سید منورحسن ،لیاقت بلوچ اور سراج الحق سمیت کئی شخصیات کندھا دیکر رخصت کررہے ہونگے۔

2012ایک طرف تو مایوسی نااُمیدی اور خونی رقص کے ساتھ تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑا مذہبی جمہوری جماعت جماعت اسلامی کے عظیم رہنما کی زندگی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا2013شروع ہوا ہر شخص دامن اُمید پھیلائے ہوئے تھا لیکن اسی سال نے اپنے پانچ دن پورے کئے تو چھٹے دن کے آغاز کے چند منٹوں پہ اُمت مسلمہ اور پاکستان اس عظیم ہستی سے محروم ہو گیا جس کا ہر لمحہ تگ ودو اسلامی انقلاب جس کا ہر لفظ ملی یکجہتی اور اتحاد اُمت تھا چھ جنوری کو جس سے بے پناہ پیار کیا اُسی کو پیارے ہوگئی دنیا کہ اس چمن میں تاقیامت ان کی دیداور کمی محسوس ہوگی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا

پشاور موٹروے چوک سے ملحقہ گراونڈ میں چھ جنوری کے صبح ہی سے اس دیدا ور کے دیدارکے لئے لوگ جمع ہورہے تھے لوگ اس فرشتہ صفت انسان کے جانے اور عالم اسلام اس عظیم نور سے محروم ہونے پر نوحہ کناں تھے ۔ سوشل میڈیا پر عالم اسلام سمیت عالم مغرب بھی انکی جدائی پر دلی صدمے کا اظہار کررہا تھا۔ مجھے محمد بن قاسم یاد آیاجب ابن قاسم کے جانے پر وہاں کے غیر مسلم اتنا غمزدہ تھے کے اس کی شکل کے مجسمے بنا کر اس کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔ آج سوشل میڈیا پر غیر مسلوں کا قاضی بابا کی جدائی پر دکھ اور غم کا اظہار کرنا محمد بن قاسم کا دور ہمیں دوبارا یاد دلا رہا ہے۔

قاضی بابا کے جنازے میں ایک طرف مختلف دینی وسیاسی راہنما قاضی بابا کی جدائی پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کرتے رہے تو دوسری طرف جنازے کے ارد گرد جمع ہوئے لوگ روحانی اور شفیق باپ کی جدائی پر آنسوں بہاتے ہوئے ہم بیٹے کس کے۔۔قاضی کے، ہم دست بازو کس کے۔۔ قاضی کے نعروں سے اس گہرے صدمے کو کم کرنے کوشش کررہے تھے لیکن یہ ہنستا مسکراتا روحانی چہرہ اپنے رب سے جلد ملاقات کا منتظر تھا۔ سیاست دان اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہے تھے ۔قاضی حسین احمد کے تر بیت یافتہ جانشین سید منور حسن نے نماز جنازہ پڑائی نماز جنازہ کے بعد لوگ اس عظیم قائد کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ لیکن پشاور کے رنگ روڈ چوک سے ملحقہ گراونڈ میں لاکھوں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے ۔آج لاکھوں لوگ کھڑے تھے ۔ایک ایسا جم غفیر نظر آتاہے کے جس میں شرکاء کی اکثریت کو قاضی بابا کے جنازے کو کندھا دینے کے سعادت حاصل نہیں ہوسکی۔ جنازہ الخدمت فاونڈیشن کی ایمبولنس میں لے جایا جارہاتھا مسلسل نعرے لگتے رہے تھے کہ ہم دست وبازو ہم بیٹے کس کے قاضی کے نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے رنگ روڈ سے ملحقہ یہ گراونڈ مسلسل گونجھتا رہا یہ پروانے بے قابو نعرے لگاتے رہے کہ شائد ہمارے اس روحانی اور شفیق باپ کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آئے گا اور ایک خوبصورت اورمشفقانہ تبسم میں کہے گا:
میرے بیٹوں میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کا جی نہیں چاہتا، آپ کا بھی جی نہیں چاہتا لیکن انشاء اللہ اللہ کی رحمت کے سائے میں جنت میں سب سے ملاقات ہوگی۔

حقیقت میں آج ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے ہیں کہ ہر پاکستانی پر اس شخصیت کے اسلام دوستی اور وطن سے محبت کی حقیقت اب وضح ہورہی ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر کہ بیت اللہ سمیت ہر بر اعظم میں لاکھوں لوگ اللہ رب العالمٰین کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے رہے تھے کے اے اللہ آپکا یہ بندا قاضی حسین احمد سچا بندا تھا ۔تعجب میں مبتلا ہوجاتا ہو ںکہ ہم نے اس اسلام پسند شخصیت کو دنیاوی زندگی میں کیوں نہ پہچان لیا یا اگر پہچان لیا تھا تو اپنا اختیار اس امانت دار کے ہاتھوں میں کیوں نہیں دیا ؟