Monday, 30 March 2015
Tuesday, 27 January 2015
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سُونے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ آسماں کیسے کیسے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
اجل نے نہ کسریٰ ہی چھوڑا نہ دارا
اسی سے سکندرسا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیاکیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں ٹھاٹ سارا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی نے پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے
یہی تجھ کو دھُن ہے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اب ہوش میں آ بھی
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
Sunday, 4 January 2015
انشاء اللہ اب جنت میں سب سے ملاقت ہوگی
انشاء اللہ اب جنت میں سب سے ملاقت ہوگی
ہدایت الرحمٰن حسن
1930تا1940کا عشرہ اُمت مسلمہ اور خاص کر برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اسی عشرے میں تحریک آزادی میں تیزی آئی اور اسی عشرے میں تحریک آزادی کے عظیم ہیرو حضرت علامہ اقبال ؒ جس نے اپنے شعرو شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا اس دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اسی عشر ے میں زیارت کاکا صاحب کے مبارک سرزمین پر شاعر مشرق کے خوابوں کی عملی تعبیر اتحاد اُمت کے داعی معروف عالم دین مولانا عبد الرب کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہو جسکا نام حسین احمد رکھا گیا بے شمار صلاحیتوں کے مالک حسین احمد ابتدائی علوم کے بعد صوبہ سرحد کی معروف درسگا اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے اور یہاں سے رخت سفر باندھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے صالح قافلے کے راہی بنے توآہستہ آہستہ قافلہراہ حق میں داخل ہوکر دین اسلام کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ نام پورے ملک میں جانا پہچانا نام بن گیا اورآخر کار 1987میں قافلہ سخت جاں سید ابوعلیٰ مودودی ؒ کے جانشین منتخب ہوکر اراکین جماعت اسلامی پاکستان کے سامنے کھڑے ہوکر یہ عہدکیا ’’کہ میں جسے جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا ہے، جماعت کی جو امانتیں میرے سپرد کی جائیگی انکی اور نظام جماعت کی پوری پوری حفاطت کرونگا اور جماعت کے دستور کا پابنداور وفا دار رہونگا اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو وفا کرنے کے توفیق عطاء فرمائے آمین ‘‘ ۔ دور امارت میں جو عہد کیا اس عہد سے وفا کیا اور کمزوری کی وجہ سے مزید امارت سے معذرت کی۔
پچھلے سال کے آخرمیں کراچی جانے کا تفاق ہوا ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کے مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کہ کاروان انقلاب کے کڑے سفر کاتھکا مسافر پروفیسر عبد الغفور احمد صاحبؒ اپنے رب کو پیارے ہوگئے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں سیاسی و دینی رہنماوں سمیت لوگوں نے شرکت کی ان میں قاضی حسین احمدبیماری کو ٹال کر شریک تھے جنازے پر یہ الفاظ ادا کئے کہ ہم بھی بہت جلد آپ سے ملنے والے ہے قاضی حسین احمد نے اپنے اس ہمسفر انقلاب کے جنازے کو کندھا دیکر اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا لیکن کیا معلوم تھاکہ یہ کندھا دینے والے کو بھی جلد سید منورحسن ،لیاقت بلوچ اور سراج الحق سمیت کئی شخصیات کندھا دیکر رخصت کررہے ہونگے۔
2012ایک طرف تو مایوسی نااُمیدی اور خونی رقص کے ساتھ تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑا مذہبی جمہوری جماعت جماعت اسلامی کے عظیم رہنما کی زندگی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا2013شروع ہوا ہر شخص دامن اُمید پھیلائے ہوئے تھا لیکن اسی سال نے اپنے پانچ دن پورے کئے تو چھٹے دن کے آغاز کے چند منٹوں پہ اُمت مسلمہ اور پاکستان اس عظیم ہستی سے محروم ہو گیا جس کا ہر لمحہ تگ ودو اسلامی انقلاب جس کا ہر لفظ ملی یکجہتی اور اتحاد اُمت تھا چھ جنوری کو جس سے بے پناہ پیار کیا اُسی کو پیارے ہوگئیدنیا کہ اس چمن میں تاقیامت ان کی دیداور کمی محسوس ہوگی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا
پشاور موٹروے چوک سے ملحقہ گراونڈ میں چھ جنوری کے صبح ہی سے اس دیدا ور کے دیدارکے لئے لوگ جمع ہورہے تھے لوگ اس فرشتہ صفت انسان کے جانے اور عالم اسلام اس عظیم نور سے محروم ہونے پر نوحہ کناں تھے ۔ سوشل میڈیا پر عالم اسلام سمیت عالم مغرب بھی انکی جدائی پر دلی صدمے کا اظہار کررہا تھا۔ مجھے محمد بن قاسم یاد آیاجب ابن قاسم کے جانے پر وہاں کے غیر مسلم اتنا غمزدہ تھے کے اس کی شکل کے مجسمے بنا کر اس کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔ آج سوشل میڈیا پر غیر مسلوں کا قاضی بابا کی جدائی پر دکھ اور غم کا اظہار کرنا محمد بن قاسم کا دور ہمیں دوبارا یاد دلا رہا ہے۔
قاضی بابا کے جنازے میں ایک طرف مختلف دینی وسیاسی راہنما قاضی بابا کی جدائی پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کرتے رہے تو دوسری طرف جنازے کے ارد گرد جمع ہوئے لوگ روحانی اور شفیق باپ کی جدائی پر آنسوں بہاتے ہوئے ہم بیٹے کس کے۔۔قاضی کے، ہم دست بازو کس کے۔۔ قاضی کے نعروں سے اس گہرے صدمے کو کم کرنے کوشش کررہے تھے لیکن یہ ہنستا مسکراتا روحانی چہرہ اپنے رب سے جلد ملاقات کا منتظر تھا۔ سیاست دان اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہے تھے ۔قاضی حسین احمد کے تر بیت یافتہ جانشین سید منور حسن نے نماز جنازہ پڑائی نماز جنازہ کے بعد لوگ اس عظیم قائد کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ لیکن پشاور کے رنگ روڈ چوک سے ملحقہ گراونڈ میں لاکھوں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے ۔آج لاکھوں لوگ کھڑے تھے ۔ایک ایسا جم غفیر نظر آتاہے کے جس میں شرکاء کی اکثریت کو قاضی بابا کے جنازے کو کندھا دینے کے سعادت حاصل نہیں ہوسکی۔ جنازہ الخدمت فاونڈیشن کی ایمبولنس میں لے جایا جارہاتھا مسلسل نعرے لگتے رہے تھے کہ ہم دست وبازو ہم بیٹے کس کے قاضی کے نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے رنگ روڈ سے ملحقہ یہ گراونڈ مسلسل گونجھتا رہا یہ پروانے بے قابو نعرے لگاتے رہے کہ شائد ہمارے اس روحانی اور شفیق باپ کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آئے گا اور ایک خوبصورت اورمشفقانہ تبسم میں کہے گا میرے بیٹوں میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کا جی نہیں آپ کا بھی جی نہیں چاہتا لیکن انشاء اللہ اللہ کی رحمت کے سائے میں جنت میں سب سے ملاقات ہوگی۔
حقیقت میں آج ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے ہیں کہ ہر پاکستانی پر اس شخصیت کے اسلام دوستی اور وطن سے محبت کی حقیقت اب وضح ہورہی ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر کہ بیت اللہ سمیت ہر بر اعظم میں لاکھوں لوگ اللہ رب العالمٰین کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے رہے تھے کے اے اللہ آپکا یہ بندا قاضی حسین احمد سچا بندا تھا ۔تعجب میں مبتلا ہوجاتا ہو ں کہ ہم نے اس اسلام پسند شخصیت کو دنیاوی زندگی میں کیوں نہ پہچان لیا یا اگر پہچان لیا تھا تو اپنا اختیار اس امانت دار کے ہاتھوں میں کیوں نہیں دیا ؟
ہدایت الرحمٰن حسن
1930تا1940کا عشرہ اُمت مسلمہ اور خاص کر برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اسی عشرے میں تحریک آزادی میں تیزی آئی اور اسی عشرے میں تحریک آزادی کے عظیم ہیرو حضرت علامہ اقبال ؒ جس نے اپنے شعرو شاعری سے مسلمانوں کو بیدار کیا اس دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اسی عشر ے میں زیارت کاکا صاحب کے مبارک سرزمین پر شاعر مشرق کے خوابوں کی عملی تعبیر اتحاد اُمت کے داعی معروف عالم دین مولانا عبد الرب کے گھر میں ایک بچہ پیدا ہو جسکا نام حسین احمد رکھا گیا بے شمار صلاحیتوں کے مالک حسین احمد ابتدائی علوم کے بعد صوبہ سرحد کی معروف درسگا اسلامیہ کالج میں داخل ہوئے اور یہاں سے رخت سفر باندھ کر اسلامی جمعیت طلبہ کے صالح قافلے کے راہی بنے توآہستہ آہستہ قافلہراہ حق میں داخل ہوکر دین اسلام کے لئے عملی کوششوں کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ یہ نام پورے ملک میں جانا پہچانا نام بن گیا اورآخر کار 1987میں قافلہ سخت جاں سید ابوعلیٰ مودودی ؒ کے جانشین منتخب ہوکر اراکین جماعت اسلامی پاکستان کے سامنے کھڑے ہوکر یہ عہدکیا ’’کہ میں جسے جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کیا گیا ہے، جماعت کی جو امانتیں میرے سپرد کی جائیگی انکی اور نظام جماعت کی پوری پوری حفاطت کرونگا اور جماعت کے دستور کا پابنداور وفا دار رہونگا اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو وفا کرنے کے توفیق عطاء فرمائے آمین ‘‘ ۔ دور امارت میں جو عہد کیا اس عہد سے وفا کیا اور کمزوری کی وجہ سے مزید امارت سے معذرت کی۔
پچھلے سال کے آخرمیں کراچی جانے کا تفاق ہوا ایک ہفتہ ہی گزرا تھا کے مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی ؒ کہ کاروان انقلاب کے کڑے سفر کاتھکا مسافر پروفیسر عبد الغفور احمد صاحبؒ اپنے رب کو پیارے ہوگئے نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں سیاسی و دینی رہنماوں سمیت لوگوں نے شرکت کی ان میں قاضی حسین احمدبیماری کو ٹال کر شریک تھے جنازے پر یہ الفاظ ادا کئے کہ ہم بھی بہت جلد آپ سے ملنے والے ہے قاضی حسین احمد نے اپنے اس ہمسفر انقلاب کے جنازے کو کندھا دیکر اپنے ہاتھوں سے رخصت کیا لیکن کیا معلوم تھاکہ یہ کندھا دینے والے کو بھی جلد سید منورحسن ،لیاقت بلوچ اور سراج الحق سمیت کئی شخصیات کندھا دیکر رخصت کررہے ہونگے۔
2012ایک طرف تو مایوسی نااُمیدی اور خونی رقص کے ساتھ تو دوسری طرف ملک کی سب سے بڑا مذہبی جمہوری جماعت جماعت اسلامی کے عظیم رہنما کی زندگی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا2013شروع ہوا ہر شخص دامن اُمید پھیلائے ہوئے تھا لیکن اسی سال نے اپنے پانچ دن پورے کئے تو چھٹے دن کے آغاز کے چند منٹوں پہ اُمت مسلمہ اور پاکستان اس عظیم ہستی سے محروم ہو گیا جس کا ہر لمحہ تگ ودو اسلامی انقلاب جس کا ہر لفظ ملی یکجہتی اور اتحاد اُمت تھا چھ جنوری کو جس سے بے پناہ پیار کیا اُسی کو پیارے ہوگئیدنیا کہ اس چمن میں تاقیامت ان کی دیداور کمی محسوس ہوگی۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا
پشاور موٹروے چوک سے ملحقہ گراونڈ میں چھ جنوری کے صبح ہی سے اس دیدا ور کے دیدارکے لئے لوگ جمع ہورہے تھے لوگ اس فرشتہ صفت انسان کے جانے اور عالم اسلام اس عظیم نور سے محروم ہونے پر نوحہ کناں تھے ۔ سوشل میڈیا پر عالم اسلام سمیت عالم مغرب بھی انکی جدائی پر دلی صدمے کا اظہار کررہا تھا۔ مجھے محمد بن قاسم یاد آیاجب ابن قاسم کے جانے پر وہاں کے غیر مسلم اتنا غمزدہ تھے کے اس کی شکل کے مجسمے بنا کر اس کو سجدہ ریز ہوئے تھے۔ آج سوشل میڈیا پر غیر مسلوں کا قاضی بابا کی جدائی پر دکھ اور غم کا اظہار کرنا محمد بن قاسم کا دور ہمیں دوبارا یاد دلا رہا ہے۔
قاضی بابا کے جنازے میں ایک طرف مختلف دینی وسیاسی راہنما قاضی بابا کی جدائی پر اپنے دلی صدمے کا اظہار کرتے رہے تو دوسری طرف جنازے کے ارد گرد جمع ہوئے لوگ روحانی اور شفیق باپ کی جدائی پر آنسوں بہاتے ہوئے ہم بیٹے کس کے۔۔قاضی کے، ہم دست بازو کس کے۔۔ قاضی کے نعروں سے اس گہرے صدمے کو کم کرنے کوشش کررہے تھے لیکن یہ ہنستا مسکراتا روحانی چہرہ اپنے رب سے جلد ملاقات کا منتظر تھا۔ سیاست دان اپنے آپ کو یتیم محسوس کررہے تھے ۔قاضی حسین احمد کے تر بیت یافتہ جانشین سید منور حسن نے نماز جنازہ پڑائی نماز جنازہ کے بعد لوگ اس عظیم قائد کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے کوشش کررہے تھے۔ لیکن پشاور کے رنگ روڈ چوک سے ملحقہ گراونڈ میں لاکھوں لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہوتا ہے ۔آج لاکھوں لوگ کھڑے تھے ۔ایک ایسا جم غفیر نظر آتاہے کے جس میں شرکاء کی اکثریت کو قاضی بابا کے جنازے کو کندھا دینے کے سعادت حاصل نہیں ہوسکی۔ جنازہ الخدمت فاونڈیشن کی ایمبولنس میں لے جایا جارہاتھا مسلسل نعرے لگتے رہے تھے کہ ہم دست وبازو ہم بیٹے کس کے قاضی کے نعرہ تکبیر اللہ اکبر سے رنگ روڈ سے ملحقہ یہ گراونڈ مسلسل گونجھتا رہا یہ پروانے بے قابو نعرے لگاتے رہے کہ شائد ہمارے اس روحانی اور شفیق باپ کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آئے گا اور ایک خوبصورت اورمشفقانہ تبسم میں کہے گا میرے بیٹوں میرے عزیزوں آپ سے جدا ہونے کا جی نہیں آپ کا بھی جی نہیں چاہتا لیکن انشاء اللہ اللہ کی رحمت کے سائے میں جنت میں سب سے ملاقات ہوگی۔
حقیقت میں آج ہم ایک عظیم انسان سے محروم ہوگئے ہیں کہ ہر پاکستانی پر اس شخصیت کے اسلام دوستی اور وطن سے محبت کی حقیقت اب وضح ہورہی ہے۔ میں نے یہ دیکھ کر کہ بیت اللہ سمیت ہر بر اعظم میں لاکھوں لوگ اللہ رب العالمٰین کے سامنے کھڑے ہوکر گواہی دے رہے تھے کے اے اللہ آپکا یہ بندا قاضی حسین احمد سچا بندا تھا ۔تعجب میں مبتلا ہوجاتا ہو ں کہ ہم نے اس اسلام پسند شخصیت کو دنیاوی زندگی میں کیوں نہ پہچان لیا یا اگر پہچان لیا تھا تو اپنا اختیار اس امانت دار کے ہاتھوں میں کیوں نہیں دیا ؟
میں بھی تو کباڑی ہوں!
ہمارے ارد گرد ایسے لاکھوں بچے ہیں جن کے کمزور کاندھوں پر گھروالوں کی کفالت جیسے بھارت ذمہ داری اُن کو تعلیم سے محروم کردیتی ہے۔ لیکن اِس مسئلہ کا حل ہے اور حل حکومت کے پاس ہوتا ہے مگر اِس کے لیے اہلیت کی شدید ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل
جنید کوساتھ لے کر سکول میں داخل ہو ا تو بریک ٹائم جاری تھا ۔بچے کھیل اور گپ شپ میں مصروف تھے، میں سکول دفتر کی طرف بڑھا تو پیچھے سے آوازیں آنے لگی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ بچے مجھ سے مخاطب ہیں۔
بچے بار بار پکاررہے تھے کہ ’اے کباڑی رک جا‘ ، بچوں کے بار بار کہنے پر میں نے رک کر پیچھے دیکھا تو پکارنے والوں نے فوراً کہا،’ہم آپ کو نہیں آپ کے ساتھ کھڑے جنید سے کہہ رہے ہیں‘۔ میں نے جنید کی طرف دیکھاتو اُس کا چہرہ سرخ اور آنکھیں نم زدہ تھیں ۔ جنید نے ہچکچاتے انداز میں مجھ سے کہا کہ سر۔۔ سر ۔۔۔میں اِن سے بار بار کہہ رہا ہوکہ مجھے کباڑی نہ کہیں مگر پھر بھی روزانہ مجھے اِس نام سے پکارتے ہیں جس سے میں سخت تنگ ہوں ۔
جنید کی آواز آہستہ مدھم ہوتے ہی وہ رونے لگ گیا ۔ میں نے آگے بڑھ کر سینے سے لگایا جیب سے رومال نکال کر اُس کے معصوم چہرے کو اشک کے قطروں سے خشک کیا لیکن جنید مسلسل روتا ہوا اپنے احساس کمتری کاشکار دل کے آنسو بہا رہاتھا۔ میں نے بچوں کے جملے بازی سے بچنے کیلئے جنید کی کان میں سرگوشی کی،’بیٹا! میں بھی تو کباڑی ہوں ۔۔ نا، یہ جملہ سنتے ہی جنید کاچہرہ مسکراتے ہوئے پُررونق ہوگیا اور تعجب بھرے انداز میں مجھے دیکھنے لگا، پھر میں اس کا ہاتھ تھام کر پرنسپل دفتر کی جانب روانہ ہوگیا۔
یہ جنید کا سکول میں پہلا قدم ہے جو اسے بہت اجنبی لگا۔ بچوں کا ہنسنا ، مسکرانا، اُن کا اچھے کپڑے پہن کر اسکول آنا، یہ سب جنید کے لیے بہت اجیب اور حیران کن تھا۔
جنید بچپن کے ابتدائی سالوں میں شفقت کے سائے سے محروم ہوگیا تھا۔ وہ تین بہنوں کا اکیلا بھائی ہے اور اُس کے سر پر ماں اور تین بہنوں کا بوجھ تھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کے تلخیاں لمحات گزارنے پر مجبور ہے۔ اِن تلخیوں کے درمیاں جنید روزانہ کی بنیاد پر جب بچوں کو اسکول کمر پر بستہ باندھے، صاف ستھرے کپڑے پہنے سکول پہنچتے دیکھتا تو اُس کا دل اُداس ہوجاتا کہ اگر چہ وہ بھی اسکول جاتا ہے مگر پڑھنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی خالی بوری کمر پر رکھ صفائی کے لیے، جہاں روز روز اسکول میں زیرِ تعلیم بچے اُسے کباڑی کہہ کراُسکا مذاق اُڑاتے ہیں۔
میری جنید کیساتھ پہلی ملاقات عید کے بعد ہوائی تھی جب چائلڈ پروٹیکشن پراجیکٹ والوں کے کہنے پر ان کے سینٹر گیا تھا جس کے بعد مستقل طور پر سینٹر جانے کا ارادہ کرلیا۔ یہ ادرہ نومبر2012 میں پشاور میں کھولا گیا تھا جس میں معاشرے میں کباڑی کے نام سے مشہور بچے آکر آپنے آپ سے کباڑی کی چھاپ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جنید بھی ان بچوں میں سے ایک تھا ۔آج دفتر سے جنید کو باقاعدہ طور پر سکول داخل کرانے کا حکم ملا تھا۔
سوال تو یہ ہے کہ آخر کب تک یہ معصوم بچے اسی طرح ذلت کی زندگی بسر کرتے رہیں گے؟ اب تک کے حالات و واقعات کی موجوگی میں اِس سوال کا جواب ملنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
پشاور میں صرف جنید نہیں ہے جو اس وقت زندگی کی تلخیوں کا سامنا کررہا ہے بلکہ وطن عزیز میں اِس طرح کے کئی جنیدہیں جو اس نظام میں عزت کے لائق نہیں سمجھے جاتے ہیں ۔ ان کیلئے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کیلئے تو بہت نعرے لگائے جاتے ہیں لیکن افسوس کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی یہ عملی شکل بننے کے بجائے نعرے ہی رہ جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ’پڑھو اور زندگی بدلو‘ کے عنوان سے صوبائی حکومت نے ایک مہم شروع کی ہے۔ اِس مہم کے مطابق صوبے کے ساڑھے 7 لاکھ بچوں کا داخلہ اسکولوں میں کروایا جائے گا اور سرکاری اسکولوں کو نجی اسکولوں کے معیار پر لایا جائے گا۔ اگرچہ ارادہ اور اعلان قابل تحسین ہے مگر وہ اعلان ہی کیا جس پر عمل نہ ہو۔ ہمیں اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ تعلیم ہی اصل زیور ہے اور اِس سے ہربچے کو لیس ہونا چاہیے مگر جناب جس بچے کے کمزور کاندھوں پر گھر کی ذمہ داری کا بھاری بوجھ آجائے بھلا وہ کیا کرے؟ اگر آپ کے شروع کردہ تعلیمی مہم کا حصہ بن جائے گا تو پھر اُس کا چولہ کیسے جلے گا؟ لہذا دست بستہ گزارش ہے کہ صوبے کے ہر بچے کو تعلیم سے استوار ضرور کیجیے مگر اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا بھی بندوبست کیجیے کہ سانس ہے تو جہاں ہے۔
Saturday, 3 January 2015
انقلابی پولیس
اگرچہ خیبرپختونخواہ میں پولیس کی کارکردگی کسی حد تک بہتر ہوئی ہے مگر پھر بھی یہاں باقی ماندہ صوبوں کی طرح رشوت کا بازار گرم اور حق تلفی عام ہے، ویسے تو اس کی عادت ہے مگر عمران خان کی موجودگی میں یہ سب کچھ عجیب لگتا ہے۔ فوٹو: فائل
آج سے تقریباً 13 برس قبل ایک برطانوی خاتون صحافی یووین ریڈلی نائن ایلیون حملے کے بعد پاکستان اور خاص کر افغانستان کی تازہ صورتحال کو انٹر نیشنل میڈیا تک پہنچانے کیلئے اسلام آباد آئی ہوئی تھی، خبر کی حصول کیلئے انہیں افغان طالبان کے ہاتھوں گرفتار ہونا بھی پڑا تھا جس کے بعد ایک کتاب لکھی تھی ’’طالبان کی قید میں‘‘ جس میں اسلام آباد اور افغانستان میں گزرے ہوئے لمحوں کا ذکر کیا ہے ۔
اس کتاب میں ایک قابل ذکر واقعہ پاکستانی پولیس کی بارے میں بھی ہے۔ ریڈلی کہتی ہے کہ مین روڈ پشاور سے جاتے ہوئے پولیس نے ہمیں کئی جگہ روکا اور نیم دلانہ انداز میں کار کی تلاشی بھی لی۔ میرے بہروپ نے انہیں مطمئن کیا مگر انہیں دراصل کسی اور چیز کی ضرورت تھی، انہیں روپوں کی ضرورت تھی۔ پولیس کی ظاہر ی تنخواہ بہت کم ہے اور اسی کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنے طور پر غیر سرکاری روڈ ٹول وصول کرتے رہتے ہیں۔ میرے گائد مسکین نے ایک پولیس مین کو کچھ روپے دیے لیکن اس نے مسکین سے جھگڑا شروع کردیا کہ یہ بہت کم ہیں جس کے بعد سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا مسکین نے غصے سے جھپٹا مارا اور روپے واپس لے کر کار تیزی سے دوڑا دی اور بھاگ نکلا، سب لوگ بے تحاشہ ہنسنے لگے، میرے ساتھ ٹیکسی ڈرایور پاشا نے کہا کہ پولیس والے بہت لالچی ہوگئے ہیں لالچ کی وجہ سے پہلی رقم سے بھی محروم ہوگیا۔
بات تو یہ بہرحال تیرا سال پرانی ہے مگر بدقسمتی سے حال اب بھی یہی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد پنجاب پولیس کی شہرت اس وقت اُبھری جب گلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑتے ہوئے سانحہ کا مرکزی کردار بن گیا۔ جس کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادی اور تحریک انصاف کی چیئرمین عمران خان کی جانب سے پورے پنجاب پولیس کو گلوبٹوں کا خطاب دیا گیا۔ اس پر لاہور میں بٹ برادری نے بھر پور احتجاج بھی کیا لیکن بٹ برادری کی احتجاج پر بھی سگے کزنز کا بٹ برادری پر تنقیدی برسات اسی طرح جاری رہی۔ بٹ کا نام اتنا متعارف ہوا کے گوگل والوں نے گلو بٹ کا ایک گیم بھی متعارف کرایا ۔
اسلام آباد دھرنے میں ایک طرف تو گلوبٹوں کو مخاطب کیا جاتا تھا تو اس کے بعد خان کی پولیس( خیبر پختونخوا پولیس) کے کارناموں کو سرہایا جاتا تھا، ٹی وی سکرین پر لائیو خطباتِ عمران خان میں روزانہ گلوبٹوں کوبُرا بلا کہنے سمیت خیبر پختونخوا پولیس کو لازمی خراج تحسین پیش کیا گیاہے کہ دیکھئے وہا ں پولیس کا نظام ۔
تو بھائی پھر سوال یہ ہے کہ بتائیے کیا نظام ہے؟ عمران کی پولیس یعنی خیبر پختونخوا پولیس جس نظام کے سبب پولیس کی کارکردگی کو بہتر پیش کیا جارہا ہے، شاید کارکردگی کاغذی طور پر بہتر ہو لیکن عملاً کارکردگی تو خیبر پختونخوا میں بسنے والوں نے بغور دیکھ ہی لی۔
ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سوات کے ایک مصروف سی این جی اسٹیشن پرلمبی قطاریں لگیں تھی کہ اس وقت عوام کی خادم پولیس کی ایک گاڑی سی این جی اسٹیشن میں داخل ہوئی۔ گمان ہمارا یہی تھا کہ خدمت کے جذبے سے آئے ہوئے لوگوں کو پُر امن رہنے اور سی این جی باری باری بھروانے کی تلقین کےلیے ہمارے محافظ یہاں آئے ہیں مگر ہمارا گمان اُس وقت غلط ثابت ہوا جب پولیس نے لائن سے آگے جاکر بدمعاشی کے ذریعے سی این جی بھروانی چاہی۔ پھر جب وہاں کھڑے ملازمین کی جانب سے بتایا گیا کہ پیچھے طویل لائن ہے تو تھپر وں اور لاتوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا ۔ تلخی اتنی بڑھ گئی کی سی این جی پمپ کی بجلی کی تاروں کو کاٹ کر بجلی منقطع کی گئی جس کے باعث کئی گھنٹوں سے قطاروں میں کھڑی گاڑیوں کو مایوس ہوکر دوسرے سٹیشن کی جانب روانہ ہونا پڑا۔ بہت سی گاڑیوں میں سی این جی ختم ہوچکی تھی تو وہ اُن بیچاروں کو دھکے کا بھی سہارا لینا پڑا۔
ایک اور مثال ہم صرف مثال کی طور پر پیش کرتے ہیں کہ پشاور پاکستان کا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا حساس ترین شہر سمجھا جاتا ہے۔ ہشتنگری بازار کو پشاور میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ رات 8 بجے کے بعد اکثر آپکو ہشتنگری سٹاپ پر روزانہ دو تین پولیس اہلکار نظر آئیں گے جو گاڑیوں کو روک کر شاید تلاشی بھی لیتے ہوں گے۔ آج سے دو دن پہلے رات کاکھانا کھانے کیلئے ہشتنگری کی ایک چھوٹے سے ہوٹل میں موجود تھے ۔ کاونٹرپر پولیس اہلکار بھی کھڑے کھانا کھانے کے بعد بل جمع کرارہے تھے کہ یہاں پر بھی کچھ تلخی نظر آئی ۔ بات مزید بگڑی تو ہم نے بھی مداخلت کی کوشش کی پتہ چلا کہ قانون کے رکھ والے بندوق کے بل بوتے پر رعایت کیلئے دباؤ ڈال رہے تھے ۔ آخر لوگوں کی مداخلت پر عوام کے محافظوں نے اپنی حیثیت کی رقم کاٹ کر باقی جمع کرادی اور یوں بڑا کارنامہ کرتے ہوئے فاتحانہ انداز میں نکل گئے۔
یہ 2 واقعات میرے سامنے ہوئے لیکن ایسے واقعات اور اس سے بھی بدتر واقعات پو لیس کی روزانہ کے معمول کا حصہ ہوتے ہیں اگر چہ ان واقعات کی عادت ہوچکی ہے مگر عمران خان کی حکومت میں یہ سب کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ اسی لیے میں سوچتا ہوں کہ کسی کی حق تلفی کرنے کے بعد اسکی حق کی حفاطت کرنا کیسے ممکن ہے؟ شاید مقولہ سنا ہو ’بلی سے دودھ کی رکھولی کرنا‘ ۔۔۔ جب عام لوگوں کی حق تلفی کی جاتی ہے اور انہیں انصاف نہ دیا جائے تو انجام وہی ہوتا ہے جو آج ہورہا ہے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ خیبرپختونخواہ پولیس کی کارکردگی پچھلے ادوار سے یقیناً بہتر ہوئی ہے لیکن اس وقت انصاف اسلامی اتحاد (تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی جمہوری اتحاد) خیبر پختونخوا میں بر سر اقتدار ہے اور پولیس کیلئے بہترین نظام پیش کرنے کی دعویدار ہے لیکن یہ عملی طور پر کب نظر آئے گا؟ یہ سوال ہے جو انصاف، اسلام اور اتحاد سے خیبر پختونخوا کی عوام پورا ہونے کیلئے اُمید بنائی بیٹھی ہے۔
انہیں خاموش کردو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسمبر کوپاکستانی مشرقی حصے کی ساقط ہونے پر نواحہ کناں تھےکہ اچانک سولہ دسمبر1971کو بلانے کیلئے 16دسمبر2014کو پھولوں کو بہت بے دردی سے کاٹ کر ایک اور16دسمبر کو دنیا کے تاریخ میں سیاہ دن کے نام سے نقش کیاگیا۔سننے والے سنتے ہی بے حال ہوگئے دیکھنے والے مزید دیکھنا برداشت نہ کرسکے۔سننے اور ٹیلی ویژن پر دیکھنے والوں کا یقیناََ بُرا حال ہوگا لیکن جو اپنے ہاتھوں سے زخموں سے تر بچوں کو ہسپتال پہنچائے،معصوم بچوں کی ننے لاشوں کے سراور پاؤں باندھ رہا ہو اس کا کیا حال ہوگا یقناََ بیان کرنے سے قاصر ہو کیونکہ کئی دن گزرنے کے بعد بھی وہ مناظر سامنے ہوجاتے ہے تو دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے آنکھیں اشک بار ہوتی ہے کیونکہ مجھے آج بھی ایک والد یاد ہے جس کا بھی کیا حال ہوگاجو اپنے پھول کی تلاش میں تھی سکول میں نہ ملنے کی وجہ سے اس کا آخری سہارا سی ایم ایچ میں پڑی لاشوں پر تھی لیکن اس یقین تھی کہ اس کی بچہ زندہ ہی ہوگا کیونکہ بقول ان کے کہ میں صاف ستھری کپڑے پہنے ہوئے اپنے بچے کے انتظار میں ہوں۔ ان کی ساتھ ساتھ ایک ایک بچے کی لاش دیکھا کر پوچھتے تھے وہ کہتی یہ نہیں ان کی دل پر کیا گزررہی ہوگی 20تک بچوں کے لاشیں دکھا کر اُن کو اپنا پیارا بیٹا نہیں ملا آخر اس کو دوسرے کونے پڑی لاشوں کی طرف لے گئے یہاں بھی بچوں کی بہت لاشیں ہیں میں نے جب پہلے بچے کے سر سے کفن ہٹا دیا تو پوراََ چیخ کر بولی یہ یہ لیکن یہ تو میرا بچہ نہیں اس نے تو آج صاف ستھری یونیفارم پہنی تھی یہ میرا بیٹا نہیں ہوسکتا میرا بیٹا زندہ ہوگا لیکن اس کی مقدر میں ہمیشہ کیلئے یہی انتظار لکھی گئی تھی اس کی اہ وپکار ایسی کہ ہر دل کو لرزا رہی ہے ،کہ اچانک دوسرے کونے میں کسی خاتوں کی پکار سن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کہیں یہ تو قیامت کے مناظر نہیں۔
سانحہ پشاور کی دوسرے دن بھی پشاور سوگوار دکانیں بند ،ہرطرف خوف کی فضاء،خفت کی اثار ہر چہرے پر نمایاں شائد کوئی ہو جوجگر دریدہ نہ ہو میں لیڈی ریڈنگ کے بلکل قریب رہائش پذیر ہو نے کی وجہ سے سب سے پہلے زخمیوں کی عیادت کیلئے گیاایمر جنسی سے زخمیوں کو ہسپتال کے مختلف بلاک میں شفٹ کیا گیا تھا میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ پہلے آرتھوپیڈیک بلاک گیا تو ایسا لگا کہ کہیں میں پھولوں کے دکان میں ہو جہاں ہر طرف گلدستے پڑے ہو کچھ سٹوڈنٹس اور اساتذہ کی عیادت کی اور کارڈیالوجی بلاک گئے جہاں آئی سی یو میں دو سٹوڈنٹس اور ایک استاد زیر علاج تھا ،وارڈ میں داخل ہونے سے پہلے زخمی ٹیچر کے بھائی نے بتایا کہ ملاقات میں آپ سے پوچھے گا کہ حولہ کیسی ہے آپ مہربانی کرکے بتا دیں کہ وہ ٹھیک ہے اور سی ایم ایچ میں زیر علاج ہے کیونکہ ڈاکٹرز نے منع کیا ہے کہ اس وقت اگر بتادیا تو ان کی بھی جان جاسکتی ہے، (حولہ زخمی استاد کی بیٹی تھی جسے وحشیوں نے دردندگی کی حدود سے پھلانگ کر ان پر گولیوں کی بوچار کی تھی)ہم وارڈ میں داخل ہوئے استاد کی حالت تھوڑی بہتر تھی ان کے قریب بیڈ پر ان کی دو شاگرد طالبات ان کے سامنے بیٹی ہوئی تھی جس کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں مشکل سے بتارہے تھے ، ہمیں ہاتھ سے اشارہ کرکے قریب بیٹھنے کا کہا ان پر گزری قیامت صغریٰ کے کچھ مناظرکچھ اسطرح سنا رہا تھا کہ’’ میں کلاس روم میں تھا کے دہشت گرد داخل ہوئے بچوں پر بے دردی سے گولیاں چلائی میں نے ان کے ساتھ ریزلنگ کی منع کرنے کی کوشش میں تھا کہ ایک نے دوسرے کو اشارہ دیا پہلے انہیں خاموش کردو مجھے خاموش کرنے کیلئے مجھ پرگولی چلائی جو میرے سینے پر لگی۔ لیکن رب العزت کو میرا خاموش ہونا ابھی منظور نہیں تھا گولی لگنے سے گر گیا خون میں لت پت ہر طرف خون ہی خون لیکن شائد یہ ظلم ظالموں نے کافی نہیں سمجھا اور پیٹرول چڑھ کر کلاس روم کو آگ لگایا میں رینگتے ہوئے مشکل سے کلاس سے نکل گیا آتنے میں کچھ فوجی جوان آئے اور آتے ہی ایک افسر نے آڈر دیا ہیٹ آیٹ۔۔۔ میں نے اونچی آواز سے بولنے کی کوشش کی لیکن مسلسل خون بہنے کی وجہ سے میری چیخ وپکار انہیں مشکل سے سنائی دی میں نے کہا نو نو نو۔۔۔۔ آئی ایم ٹیچر اور اور ساتھ ہی جیب سے سروس کارڈ نکالا جس پر فوجی جوان نے دوسرے جوان کو اشارہ کیا مجھے باہر نکال کر ایمبولینس میں لایا گیا ۔ میں نے آئی سی یو سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن مجھے زخمی استاد مجھے تفصیل بتانے کیلئے مجھے مزید روکنے کا کہا ہم باہر نکلے ایک ساتھی نے نرس کو بتایا کہ انہیں آرام کرنے دو کیونکہ یہ سناتے ہوئے ان کی حالات مزید ابتر ہورہی تھی‘‘۔
جب ذہن 16دسمبرکو لمس کرتا ہے تو سی ایم ایچ میں عجیب ساں سوگوار فضاء ایمبولینس کی غمزدہ آوازیں بچوں کے والدین کی آہوں وپُکار سی ایم ایچ کی ایمر جنسی بلاک کی دوسری منزل میں قطار میں پڑی لاشیں میں ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ایک چمن میں موجود ہو گلاب کا پودا میرے سامنے ہیں اور اس سے بہت بے دردی کیساتھ پھول کاٹے جاتے ہیں کہ پھول کا پودا پھول کاٹنے سے لرز جاتا ہے ۔
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے سر جو اُٹھتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہے کیا ظلم کی اوقات ہے کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجان تلک
میں ایک ایک بچے کی لاش کے قریب سے گزر کر دیکھ رہا ہوں ننے پھولوں کو اتنے بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ہے لاشوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ بہت قریب سے گولی مار دی گئی ہے تقریباََ پچاس کے قریب بچوں کی لاشیں دیکھ کر آگے بڑا تو معلوم ہوا کہ یہ علم سکھانے والی ماں ہے جس کو کئے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کے قریب بیٹھی انکی بہن چیخ کر اپنی بہن کو پکار رہی ہے لیکن علم سکھانی والی عظیم ماں آج جنت کے بالاخانے کی جلدی میں اپنی بہن کی آہ سننے سے قاصر ہے ۔
آج ایسا منظر ہے کہ ایک شہید بچہ دوسرے سے کچھ یوں گلہ کرتا ہوگا کہ
سبھی آئے میرے جنازے کے پیچھے اک تو ہی نہ آیا میرے جنازے کے پیچھے
تو کیسے آتا میرے جنازے کے پیچھے میرا جنازہ تھا تیرے جنازے کے پیچھے
کسی نے بہت غلط کہا ہے کی ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے پشاور میں موت کی رقص دیکھ رہا ہو تو میرے خیال میں ظلم کی کوئی انتہا نہیں آج ظالم نے ظلم کی حدود کراس کئے ہے مجھے تو ایک استانی کی لاش انکے گھر پہچانے کی خدمت کا موقعہ ملا وہا ں قیامت صغریٰ دیکھ کر سوچتا ہو کہ پشاور کے 140گھرانوں میں اسی طرح قیامت صغریٰ ہو گا جو میں نے دیکھا ۔ میں نے ایک ماں کی میت پر انکی بچوں کی چیخ وپکار دیکھی پتہ نہیں کہ آج 140بچوں کی مائیں کس حال میں ہوں گے ۔
کبھی دل چاہ رہا ہے کہ کسی سے تعذیت کرو ۔لیکن
تعذیت لفظ کتنا چھوٹا ہے آج احساس ہورہا ہے مجھے
میں نے قیامت بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن آج میرے پاس الفاظ نہیں کے قیامت صغریٰ کے وہ مناظر نقش کرسکوں ۔ لیکن سفاکیت اور کمینہ پن کی انتہا کرنے والوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ۔
لاکھ بیٹھے ہوئے چھپ چھپ کے کمین گاہوں میں خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشین لاکھ اڑاتی رہیں ظلمات کا نقاب لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
سانحہ پشاور کی دوسرے دن بھی پشاور سوگوار دکانیں بند ،ہرطرف خوف کی فضاء،خفت کی اثار ہر چہرے پر نمایاں شائد کوئی ہو جوجگر دریدہ نہ ہو میں لیڈی ریڈنگ کے بلکل قریب رہائش پذیر ہو نے کی وجہ سے سب سے پہلے زخمیوں کی عیادت کیلئے گیاایمر جنسی سے زخمیوں کو ہسپتال کے مختلف بلاک میں شفٹ کیا گیا تھا میں کچھ ساتھیوں کے ساتھ پہلے آرتھوپیڈیک بلاک گیا تو ایسا لگا کہ کہیں میں پھولوں کے دکان میں ہو جہاں ہر طرف گلدستے پڑے ہو کچھ سٹوڈنٹس اور اساتذہ کی عیادت کی اور کارڈیالوجی بلاک گئے جہاں آئی سی یو میں دو سٹوڈنٹس اور ایک استاد زیر علاج تھا ،وارڈ میں داخل ہونے سے پہلے زخمی ٹیچر کے بھائی نے بتایا کہ ملاقات میں آپ سے پوچھے گا کہ حولہ کیسی ہے آپ مہربانی کرکے بتا دیں کہ وہ ٹھیک ہے اور سی ایم ایچ میں زیر علاج ہے کیونکہ ڈاکٹرز نے منع کیا ہے کہ اس وقت اگر بتادیا تو ان کی بھی جان جاسکتی ہے، (حولہ زخمی استاد کی بیٹی تھی جسے وحشیوں نے دردندگی کی حدود سے پھلانگ کر ان پر گولیوں کی بوچار کی تھی)ہم وارڈ میں داخل ہوئے استاد کی حالت تھوڑی بہتر تھی ان کے قریب بیڈ پر ان کی دو شاگرد طالبات ان کے سامنے بیٹی ہوئی تھی جس کو پیش آنے والے واقعے کے بارے میں مشکل سے بتارہے تھے ، ہمیں ہاتھ سے اشارہ کرکے قریب بیٹھنے کا کہا ان پر گزری قیامت صغریٰ کے کچھ مناظرکچھ اسطرح سنا رہا تھا کہ’’ میں کلاس روم میں تھا کے دہشت گرد داخل ہوئے بچوں پر بے دردی سے گولیاں چلائی میں نے ان کے ساتھ ریزلنگ کی منع کرنے کی کوشش میں تھا کہ ایک نے دوسرے کو اشارہ دیا پہلے انہیں خاموش کردو مجھے خاموش کرنے کیلئے مجھ پرگولی چلائی جو میرے سینے پر لگی۔ لیکن رب العزت کو میرا خاموش ہونا ابھی منظور نہیں تھا گولی لگنے سے گر گیا خون میں لت پت ہر طرف خون ہی خون لیکن شائد یہ ظلم ظالموں نے کافی نہیں سمجھا اور پیٹرول چڑھ کر کلاس روم کو آگ لگایا میں رینگتے ہوئے مشکل سے کلاس سے نکل گیا آتنے میں کچھ فوجی جوان آئے اور آتے ہی ایک افسر نے آڈر دیا ہیٹ آیٹ۔۔۔ میں نے اونچی آواز سے بولنے کی کوشش کی لیکن مسلسل خون بہنے کی وجہ سے میری چیخ وپکار انہیں مشکل سے سنائی دی میں نے کہا نو نو نو۔۔۔۔ آئی ایم ٹیچر اور اور ساتھ ہی جیب سے سروس کارڈ نکالا جس پر فوجی جوان نے دوسرے جوان کو اشارہ کیا مجھے باہر نکال کر ایمبولینس میں لایا گیا ۔ میں نے آئی سی یو سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن مجھے زخمی استاد مجھے تفصیل بتانے کیلئے مجھے مزید روکنے کا کہا ہم باہر نکلے ایک ساتھی نے نرس کو بتایا کہ انہیں آرام کرنے دو کیونکہ یہ سناتے ہوئے ان کی حالات مزید ابتر ہورہی تھی‘‘۔
جب ذہن 16دسمبرکو لمس کرتا ہے تو سی ایم ایچ میں عجیب ساں سوگوار فضاء ایمبولینس کی غمزدہ آوازیں بچوں کے والدین کی آہوں وپُکار سی ایم ایچ کی ایمر جنسی بلاک کی دوسری منزل میں قطار میں پڑی لاشیں میں ایسا محسوس کررہا ہوں کہ ایک چمن میں موجود ہو گلاب کا پودا میرے سامنے ہیں اور اس سے بہت بے دردی کیساتھ پھول کاٹے جاتے ہیں کہ پھول کا پودا پھول کاٹنے سے لرز جاتا ہے ۔
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے سر جو اُٹھتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہے کیا ظلم کی اوقات ہے کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجان تلک
میں ایک ایک بچے کی لاش کے قریب سے گزر کر دیکھ رہا ہوں ننے پھولوں کو اتنے بے دردی کیساتھ شہید کیا گیا ہے لاشوں کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ بہت قریب سے گولی مار دی گئی ہے تقریباََ پچاس کے قریب بچوں کی لاشیں دیکھ کر آگے بڑا تو معلوم ہوا کہ یہ علم سکھانے والی ماں ہے جس کو کئے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کے قریب بیٹھی انکی بہن چیخ کر اپنی بہن کو پکار رہی ہے لیکن علم سکھانی والی عظیم ماں آج جنت کے بالاخانے کی جلدی میں اپنی بہن کی آہ سننے سے قاصر ہے ۔
آج ایسا منظر ہے کہ ایک شہید بچہ دوسرے سے کچھ یوں گلہ کرتا ہوگا کہ
سبھی آئے میرے جنازے کے پیچھے اک تو ہی نہ آیا میرے جنازے کے پیچھے
تو کیسے آتا میرے جنازے کے پیچھے میرا جنازہ تھا تیرے جنازے کے پیچھے
کسی نے بہت غلط کہا ہے کی ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے پشاور میں موت کی رقص دیکھ رہا ہو تو میرے خیال میں ظلم کی کوئی انتہا نہیں آج ظالم نے ظلم کی حدود کراس کئے ہے مجھے تو ایک استانی کی لاش انکے گھر پہچانے کی خدمت کا موقعہ ملا وہا ں قیامت صغریٰ دیکھ کر سوچتا ہو کہ پشاور کے 140گھرانوں میں اسی طرح قیامت صغریٰ ہو گا جو میں نے دیکھا ۔ میں نے ایک ماں کی میت پر انکی بچوں کی چیخ وپکار دیکھی پتہ نہیں کہ آج 140بچوں کی مائیں کس حال میں ہوں گے ۔
کبھی دل چاہ رہا ہے کہ کسی سے تعذیت کرو ۔لیکن
تعذیت لفظ کتنا چھوٹا ہے آج احساس ہورہا ہے مجھے
میں نے قیامت بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن آج میرے پاس الفاظ نہیں کے قیامت صغریٰ کے وہ مناظر نقش کرسکوں ۔ لیکن سفاکیت اور کمینہ پن کی انتہا کرنے والوں کیلئے ایک پیغام ہے کہ۔
لاکھ بیٹھے ہوئے چھپ چھپ کے کمین گاہوں میں خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشین لاکھ اڑاتی رہیں ظلمات کا نقاب لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
Subscribe to:
Posts (Atom)