اردو تقریر
موضوع : ''خدمت میں عظمت''
''خدمت میں عظمت''
فرمان ربانی
ومن أحیاھا فکأنما احیا الناس جمیعا
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ھیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ھیں
تو شاھیں ھے پرواز ھے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ھیں
اسی روز و شب میں الجھہ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ھیں
حضرات و حاضرین ۔۔۔۔۔ !
آج مجھے جس موضوع پر گفتگو کرنا ھے وہ کچھ یوں ھے کہ
''خدمت میں عظمت''
دنیا ترقی کی لاکھون مراحل طے کر چکی ھے اور آج انسان فضاؤں کی تسخیر کرنے اور آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کے متعلق سوچ رہا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ انسانی زندگی آج بھی انھی اصولوں پر استوار ھے جن اصولوں پر آج سے ھزاروں سال پہلے تھا آج بھی انسانی دنیا کامیابی، شہرت اور ترقی کے وھی اصول ھیں جو آج سے ھزاروں سال پہلے تھے
حضرات گرمئ قدر ۔۔۔۔۔۔۔ !
آج سے ھزاروں سال پہلے بھی لوگ جن باتوں سے ناراض ھوتے تھے آج بھی انہی باتوں سے نا خوش ھوتے ھیں۔ اس وقت کے لوگ جن باتوں پر خوش ھوتے تھے آج کے لوگ بھی انہی باتوں پر خوشی کا اظہار کرتے ھیں۔
اسلام کے ان زریں اصولوں میں سے ایک اصول یہ ھیکہ
''قوم کا سردار انکا خادم ھوتا ھے''
بظاھر تو یہ ایک چھوٹا سا اصول ھے اور یہ اصول ھماری قوم کی توجہ حاصل نہیں کر سکا
اسکے برعکس ھمارا خیال یہ ھے کہ قوم کا سردار انکا مخدوم ھوتا ھے۔ اسی لیئے ھمارے ہاں کرسئ اقتدار ملنے کے بعد قوم کسی رحم اور معافی کی مستحق نہیں سمجھی جاتی۔
لیکن سچ تو یہ ھے کہ دنیا میں حقیقی سرداری، عزت اور توقیر انھیں کو حاصل ھوتی ھے جو اسلام کے اس سچے اور لازوال اصول پر عمل کرتے ھیں اور لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کی معرا سمجھتے ھیں۔
البتہ جو لوگ یا قومیں اسکے بر عکس عمل کرتی ھیں دنیا اور آخرت دونوں میں ذلت و رسوائی انکا مقدر ھوتی ھے۔
سامعین ۔۔۔۔۔ !
نبئ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوۃ حسنہ اور خلفائے راشدین نے اپنے پاکیزہ طرزعمل کے ذریئعے ھمیں اسکی تعلیم فراھم کی ھے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ھمیشہ خود صحابہ کے ساتھہ ہر معاملہ میں میں شریک رھے اور کسی موقع پر بھی امتیازی انداز کا مظاھرہ نہیں فرمایا
جب مدینہ منورہ آپ کی آمد ھوئی اور تمام علاقے کے لوگوں نے آپ علیہ السلام کو حاکمتسلیم کر لیا تو اسکے باوجود بھی آپ کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔
''مسجد قباء'' اور ''مسجد نبوی'' کی تعمیر ھوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۃ کرام کے ساتھہ ملکر اسکی تعمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے صحابہ کی طرح مٹی اور گارے کو اٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں انکے ساتھہ شریک تھے۔
اور جب صحابہ ایک آواز ھوکر اشعار پڑھتے تو رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انکا ساتھہ دیتے۔
اسی طرح غزوۃ خندق کے موقع پر جب تین ھزار صحابہ کرام خندق کھود رھے تھے تو آپ علیہ السلام بھی انکے ساتھہ مزدوروں کی طرح کام میں لگے ھوئے تھے اس سے بھی زیادہ جب کوئی مشکل مقام آتا ھے تو صحابہ آپ علیہ السلام کے پاس آتے اور آپ کدال لے کر اسکی کھدائی کر دیتے۔
جناب والا ۔۔۔۔۔۔ !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں کی خدمت اپنے ہاتھہ سے کرتے۔
حدیث میں ھیکہ
حبشہ سے کچھہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا جب انکی خدمت کا وقت آیا تو صحابہ رضوان اللہ علیہم أجمعین نے چاھا کہ انکی خدمت کریں لیکن نبی أکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''ان لوگوں نے میرے صحابہ کی خدمت کی تھی میں انکی خدمت اپنے ہاتھوں سے کرنا چاھتا ھوں''
أم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نبئ مکرم کے بارے میں بیان کرتی ھیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ھوتے تو اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے اپنی بکری کا دودھ خود دوھتے، جوتا ٹوٹا ھوا ھوتا تو اسے پیوند لگا لیتے، پھٹے ھوئے کپڑے سی لیتے، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیئے کوئی بھی شخص آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندہ پیشانی سے ملتے،
اسی طرح خلفائے راشدین میں سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ھیکہ
وہ کئی غریب لوگوں کے گھروں میں جاتے اور انکے جانوروں کا دودھ دھو آتے، اگر گھر میں سودا سلف لانے والا کوئی نہ ھوتا تو آپ بازار سے انہیں سودا سلف لاکر دے دیتے
حضرت عمر کی خدمت کے متعلق قصے تو ہر زبان پر ھیں
سیدنا عثمان اور علی رضی اللہ عنھما بھی عوام کی خدمت میں پیش پیش رھتے تھے
سامعین محترم ۔۔۔۔۔ !
سیرت طیبہ کے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ھوا کہ اللہ تعالی نے ''خدمت میں عظمت'' رکھی ھے
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ھے
زندہ رھتا ھے انسان خدمات سے
نہ کہ مال و منصب، نہ مراعات سے
نیک نامی تو بھی دنیا میں کما
بہرہ ور ھو تو بھی اس سوغات سے