Tuesday, 14 October 2014

ﺍﺻﻞ ﻣﺤﺒﺖ

ﺍﺻﻞ ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻝ
ﮐﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﺍُﮒ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺭﺵ
ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﮨﺮﯾﺎﻟﯽ ۔۔۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮨﺮﯾﺎﻟﯽ ﮐﻮ ﻧﮑﺎﺡ
ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮬﻦ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﺎﺷﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺳﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﮨﯽ ﺳﯿﻢ ﺯﺩﮦ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ
ﺳﺎﺭﮮ ﺣﺴﯿﻦ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﻭﺭ ﭘُﺮﻟﻄﻒ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﺟﻮ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺗﮯ
ﮨﯿﮟ، ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﺴﮯ ﭨﻮﭨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮐﺮﭼﯿﺎﮞ ﻧﮧ
ﺳﻤﭧ ﭘﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﭼُﻨﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﻌﺪ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﺍﻥ ﮨﯽ ﮐﺮﭼﯿﻮﮞ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﻭﮦ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺳﺎ ﮔﮭﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﺗﺎﺭﮮ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ
ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﺲ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﻭ
ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻝ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺗﺮﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﺑﻮﻝ
ﺍﭘﻨﯽ ﻣﭩﮭﺎﺱ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻟﭩﺎ ﭼﮑﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔

ایک ہو مسلم


بچپن میں ایک کہانی سنی تھی جس میں ایک چرواہا تھا. ..
ایک دن اس کو جنگل میں شیر کا ایک بچہ ملا تو وہ بڑا پریشان ہوا کہ اس کا کیا کرے ظاہر ہے کہ اس کو اپنے گھر نہیں لیجاسکتا تھا بھیڑ بکریوں پر ہی اس غریب کا گزر بسر تھا شیر کی وحشت سے خوب واقف تھا مگر دل میں رحم آگیا اور شیر کے اس بچے کو اپنے ساتھ لے آیا....
اور اس کی پرورش کرنے لگا شیر کا یہ بچہ آہستہ آہستہ بڑا ہورہا تھا مگر اس کو شکار کرنا نہیں آتا تھا بلکہ بھیڑ بکریاں اس سے جارحانہ رویہ اپنائے رکھتے
اور یہ غریب ان کی مار تک بھی برداشت کر جاتا جنگل میں موجود ایک بھیڑئیے نے جب یہ منظر دیکھا تو خوش ہوگیا کہ یہ شیر جس کے ڈر کی وجہ سے میں ان بکریوں کا شکار نہیں کررہا تھا یہ شیر تو خود بھیڑ بنا ہوا ہے-
غرض یہ کہ اس بھیڑئیے نے ایک دن ہمت کر ہی لی اور ایک بکری پر حملہ کردیا اس بکری کے پیچھے جب یہ بھیڑیا دوڑ رہا تھا تو شیر باقی بکریوں کی طرح دور کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا مگر جب اس نے اس بکری کی بے بسی ، اور اس کے خوف کو دیکھا تو ایک دم اس کے اندر کے شیر کی سوئی ہوئی جبلت جاگ اٹھی اس نے اس زور سے دھاڑ ماری کہ بھیڑیا لرز اٹھا اور پھر شیر نے اس کو حملہ کرکے بھگا دیا-
دل خون کے آنسو روتا ہے اس بات کو سوچ سوچ کر کہ اس مسلمان سے کافر کب سے کھیل رہے ہیں مگر اپنی جبلت میں پڑا کلمہ بیدار ہی نہیں کرتا-
یاد رہے لا الہ الا اللہ کا مطلب یہی ہے کہ کوئی معبود نہیں کوئی بڑا نہیں کوئی چودھری نہیں کوئی حاکم نہیں سوائے اللہ بزرگ و برتر کے-
آج اس غریب مسلمان کی جان کو ہر کوئی چودھری بنا ہوا ہے-
ہان یہی مسلمان ہے کہ جس کا قتل عام کیا جاتا ہے جس کی آبرو پر ڈاکے ڈالے جاتے ہیں جس کی بیٹیوں کا کوئی وارث نہیں-
جس کی اجتماعی قبریں دنیا میں پھیلتی جارہی ہیں جس کی پوری پوری بستیوں کو جلا دیا جاتا ہے جس کی مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے...
~ میرے بھائیو ~
اللہ کےلیے اپنے مسلمانوں کی خبر لو
مسلمانوں کی یہ درد سے لبریز اور غم و الم میں ڈوبی پکار آج دنیا کے ہر کونے سے آرہی ہے-
آج ہر مسلمان ان مظلوموں کےلیے جو ھو سکتا وہ کر گزرے ہماری زندگیوں میں لوگ اللہ اور اس کے رسول کی حرمت کے ساتھ مذاق کررہے ہیں بے بس امت مسلمہ اپنے حکمرانوں سے مایوس ہوکر مسلمانوں کو پکار رہی ہے-
{ اے مسلم }
اگر تو خود کچھ نہیں کرسکتا تو رب کےلیے ان مظلوم مسلمانوں کے پیغام کو دوسرے مسلمانوں تک پہنچا دے شاید کوئی نبی کی امت کا وارث اٹھ کھڑا ھو
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلیئے

برائی

پتہ نہیں یہ برائی کیوں اتنی وزن دار ہوتی ہے لاکھ اچھائیوں پر غلبہ پاتی ہے ہم انسان کسی کی ایک برائی کی وجہ سے اسکی لاکھ اچھائیوں کو بھلا دیتے ہیں۔ پھر وہی ایک برائی دل میں صدا زندہ رہتی ہے مگر اچھائیاں زندگی بھر کے مٹ جاتے ہیں۔

حیثیت


چیزیں حیثیت نہیں رکھتیں، انسان بھی نہیں رکھتے، اہم ہوتے ہیں رشتے جب ہم سے چیزیں چھین لی جائیں تو دل ڈوب، ڈوب کے ابھرتا ہے مگر جب رشتے کھو جائیں تو دل ایسا ڈوبتا ہے کہ ابھر نہیں سکتا، سانس تک رک جاتی ہے پھر
زندگی میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔"
اقتباس: نمرہ احمد کے ناول "پارس" سے

مذہب کی اہمیت


مذہب کی اہمیت کا اصل اندازہ تو اسی وقت ہوتا ھے جب آپ آزمائش میں ہوں۔ آزمائش بلکل دلدل کی طرح ہوتی ھے اس میں سے انسان صرف اپنے بل بوتے پر نہئں نکل سکتا۔ کوئی رسی چاھئے ہوتی ھے کسی کا ہاتھ درکار ہوتا ھے اور اس وقت وہ رسی اور ہاتھ مذہب ہوتا ھے۔ رسی اور ہاتھ نہئں ہوگا تو آپ دلدل کے اندر جتنے ذیادہ ہاتھ پاؤں مرئیں گے اتنا ہی جلد ڈوبیں گے۔ پانی میں ڈوبنے والا شخص زندہ نہئں تو مرنے کے بعد باھر آ جاتا ھے مگر دلدل جس شخص کو نگلنے میں کامیاب ہوجاتی ھے اسے دوبارہ ظاھر نہئں کرتی لیکن جو شخص ایک بار ہاتھ اور رسی کے زریعے دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوجاے وہ اگلی کسی دلدل سے نھئں ڈرتا۔ اسے یقین ہوتا ھے کہ وہ شور مچاے گا چلاے گا تو ہاتھ اور رسی بالاآخر آجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائناتی ماڈل...

کائناتی ماڈل... 

یہ کائناتی ماڈل کیا ہے .. آپ خلا میں پھیلے ہوئے ستاروں اور سیاروں کو دیکھیے .. ہر ستارہ اور سیارہ نہایت پابندی کے ساتھ اپنے اپنے مدار میں چل رہا ہے ..
ان میں سے کوئ کسی دوسرے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا.. اسی ڈسپلن کی وجہ سے خلا میں ہر طرف امن قائم ہے.. انسان کو بھی اپنے سماج میں عدم مداخلت کی اسی پالیسی کو اختیار کرنا ہے.. ہر ایک کہ اندر یہ زندہ شعور ہونا چاہیے کہ اس کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے دوسرے کی آزادی شروع ہوتی ہے...

اسی طرح درختوں کی دنیا کو دیکھیے.. درختوں نے خاموشی کے ساتھ یہ نظام اختیار کر رکھا ہے کہ وہ زندہ اجسام کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مسلسل آکسیجن سپلائی کرتے ہیں ..
اور زندہ اجسام سے نکلی ہوئ غیر مطلوب کاربن ڈائ آکسائیڈ کو اپنے اندر لے لیتے ہیں... یہ ایک بے غرضانہ نفع بخشی کا نظام ہے.. انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اسی نظام. کو اختیار کرے...

اسی طرح اپ دیکھتے ہیں کہ پہاڑوں سے پانی کے چشمے اوپر سے نیچے کی طرف جاری ہوتے ہیں... ان چشموں کے ساتھ بار بار ایسا ہوتا ہے کی ان کے راستے میں ایسے پتھر آتے ہیں جو بظاہر ان کے سفر کے لیے رکاوٹ ہوتے ہیں...
مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ وہ پتھر کو ہٹا کر اپنا راستہ بنانے کی کوشش کرے..اس کی بجائے وہ یہ کرتا ہے کہ پتھر کے کنارے سے اپنا راستہ بنا کر اگے چلا جاتا ہے..
یہ گویا اس بات کا پیغام ہےکہ ------ رکاوٹوں سے نہ ٹکراؤ ..بلکہ رکاوٹوں سے ہٹ کر اپنی سرگرمی جاری کرو...
اس سے معلوم ہوا کہ آس پاس کی جو دنیا ہے وہ دینے والی دنیا ( Giver world ) ہے لینے والی دنیا ( Taker world ) نہیں ....
اس دنیا کی ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ دوسروں سے لیے بغیر دوسروں کو دینے والے بنو.... انسان کو یہی کلچر اپنانا ہے اس کو اپنی دنیا میں دینے والا بن کر رہنا ہے نہ کہ لینے والا...

''خدمت میں عظمت''

اردو تقریر
موضوع : ''خدمت میں عظمت''
''خدمت میں عظمت''
فرمان ربانی
ومن أحیاھا فکأنما احیا الناس جمیعا
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ھیں
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ھیں
تو شاھیں ھے پرواز ھے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ھیں
اسی روز و شب میں الجھہ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ھیں
حضرات و حاضرین ۔۔۔۔۔ !
آج مجھے جس موضوع پر گفتگو کرنا ھے وہ کچھ یوں ھے کہ
''خدمت میں عظمت''
دنیا ترقی کی لاکھون مراحل طے کر چکی ھے اور آج انسان فضاؤں کی تسخیر کرنے اور آسمانوں پر کمندیں ڈالنے کے متعلق سوچ رہا ھے لیکن حقیقت یہ ھے کہ انسانی زندگی آج بھی انھی اصولوں پر استوار ھے جن اصولوں پر آج سے ھزاروں سال پہلے تھا آج بھی انسانی دنیا کامیابی، شہرت اور ترقی کے وھی اصول ھیں جو آج سے ھزاروں سال پہلے تھے
حضرات گرمئ قدر ۔۔۔۔۔۔۔ !
آج سے ھزاروں سال پہلے بھی لوگ جن باتوں سے ناراض ھوتے تھے آج بھی انہی باتوں سے نا خوش ھوتے ھیں۔ اس وقت کے لوگ جن باتوں پر خوش ھوتے تھے آج کے لوگ بھی انہی باتوں پر خوشی کا اظہار کرتے ھیں۔
اسلام کے ان زریں اصولوں میں سے ایک اصول یہ ھیکہ
''قوم کا سردار انکا خادم ھوتا ھے''
بظاھر تو یہ ایک چھوٹا سا اصول ھے اور یہ اصول ھماری قوم کی توجہ حاصل نہیں کر سکا
اسکے برعکس ھمارا خیال یہ ھے کہ قوم کا سردار انکا مخدوم ھوتا ھے۔ اسی لیئے ھمارے ہاں کرسئ اقتدار ملنے کے بعد قوم کسی رحم اور معافی کی مستحق نہیں سمجھی جاتی۔
لیکن سچ تو یہ ھے کہ دنیا میں حقیقی سرداری، عزت اور توقیر انھیں کو حاصل ھوتی ھے جو اسلام کے اس سچے اور لازوال اصول پر عمل کرتے ھیں اور لوگوں کی خدمت کو اپنی زندگی کی معرا سمجھتے ھیں۔
البتہ جو لوگ یا قومیں اسکے بر عکس عمل کرتی ھیں دنیا اور آخرت دونوں میں ذلت و رسوائی انکا مقدر ھوتی ھے۔
سامعین ۔۔۔۔۔ !
نبئ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوۃ حسنہ اور خلفائے راشدین نے اپنے پاکیزہ طرزعمل کے ذریئعے ھمیں اسکی تعلیم فراھم کی ھے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں ھمیشہ خود صحابہ کے ساتھہ ہر معاملہ میں میں شریک رھے اور کسی موقع پر بھی امتیازی انداز کا مظاھرہ نہیں فرمایا
جب مدینہ منورہ آپ کی آمد ھوئی اور تمام علاقے کے لوگوں نے آپ علیہ السلام کو حاکمتسلیم کر لیا تو اسکے باوجود بھی آپ کے طرز عمل میں کوئی فرق نہیں آیا۔
''مسجد قباء'' اور ''مسجد نبوی'' کی تعمیر ھوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۃ کرام کے ساتھہ ملکر اسکی تعمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوسرے صحابہ کی طرح مٹی اور گارے کو اٹھانے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں انکے ساتھہ شریک تھے۔
اور جب صحابہ ایک آواز ھوکر اشعار پڑھتے تو رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انکا ساتھہ دیتے۔
اسی طرح غزوۃ خندق کے موقع پر جب تین ھزار صحابہ کرام خندق کھود رھے تھے تو آپ علیہ السلام بھی انکے ساتھہ مزدوروں کی طرح کام میں لگے ھوئے تھے اس سے بھی زیادہ جب کوئی مشکل مقام آتا ھے تو صحابہ آپ علیہ السلام کے پاس آتے اور آپ کدال لے کر اسکی کھدائی کر دیتے۔
جناب والا ۔۔۔۔۔۔ !
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں کی خدمت اپنے ہاتھہ سے کرتے۔
حدیث میں ھیکہ
حبشہ سے کچھہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا جب انکی خدمت کا وقت آیا تو صحابہ رضوان اللہ علیہم أجمعین نے چاھا کہ انکی خدمت کریں لیکن نبی أکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''ان لوگوں نے میرے صحابہ کی خدمت کی تھی میں انکی خدمت اپنے ہاتھوں سے کرنا چاھتا ھوں''
أم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نبئ مکرم کے بارے میں بیان کرتی ھیں کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ھوتے تو اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے اپنی بکری کا دودھ خود دوھتے، جوتا ٹوٹا ھوا ھوتا تو اسے پیوند لگا لیتے، پھٹے ھوئے کپڑے سی لیتے، اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لیئے کوئی بھی شخص آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندہ پیشانی سے ملتے،
اسی طرح خلفائے راشدین میں سے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ھیکہ
وہ کئی غریب لوگوں کے گھروں میں جاتے اور انکے جانوروں کا دودھ دھو آتے، اگر گھر میں سودا سلف لانے والا کوئی نہ ھوتا تو آپ بازار سے انہیں سودا سلف لاکر دے دیتے
حضرت عمر کی خدمت کے متعلق قصے تو ہر زبان پر ھیں
سیدنا عثمان اور علی رضی اللہ عنھما بھی عوام کی خدمت میں پیش پیش رھتے تھے
سامعین محترم ۔۔۔۔۔ !
سیرت طیبہ کے مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ھوا کہ اللہ تعالی نے ''خدمت میں عظمت'' رکھی ھے
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ھے
زندہ رھتا ھے انسان خدمات سے
نہ کہ مال و منصب، نہ مراعات سے
نیک نامی تو بھی دنیا میں کما
بہرہ ور ھو تو بھی اس سوغات سے